Saturday, August 26, 2023

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان



آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان


 تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے ساتھ زیادتی آزاد ملک میں نہایت شرمناک بات ہے



از قلم: محمد احسان الحق جامعی بی .یو.ایم.ایس. (اے.ایم.یو. علی گڑھ) و جوائنٹ سیکرٹری ایم.ایس.او. آف انڈیا


ہندوستان کی آزادی کو تقریباً ٧٦ سال کا عرصہ گزر گیا لیکن مرور ایام کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب و تمدن اور ہماری بھائی چارگی بھی دن بدن ختم ہوتے چلی جاری ہے۔ جب اس ملک پر انگریز حکومت کا قبضہ تھا تو اس حکومت کا ایک ہی فنڈا تھا؛ عوام پر ظلم و ستم کرنا اور یہاں کے لوگوں کو ذات پات و قبائل کے نام آپس میں لڑا کر اپنی حکومت کو قائم رکھنا۔ اس مقصد کے لئے اس انگریز نے ہر طرح کے حربے کو استعمال کیا اور اسی کی بدولت سالوں اس ملک پر قابض رہے۔ یہاں کے باشندوں کو آپس میں لڑایا، ذات پات اور مذہب و مسلک کی بناء پر لوگوں کو لڑایا۔ اس بیچ یہاں کے باشندوں نے بار بار کوششیں کیں اور جنگیں لڑیں، بڑی بڑی ہستیوں نے اپنی اپنی جانوں کی قربانیاں بھی پیش کیں حتی کہ ١٨٥٧ کی جنگ کا عظیم سانحہ بھی درپیش ہوا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں علماء ، رہنماء و اکابرین کی شہادت ہوئیں۔ ایسے میں حکومت نے مسلم قوم کو خوب ٹارگیٹ کیا اور ہر طرح سے ان کے پیچھے پڑ گئے۔ علماء کو پکڑ پکڑ کر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ کئیوں کو کالا پانی کی سزا دی گئی۔ پھر ہمارے دیش کے رہنماؤں کو اپنی اصلی کمزوری کا احساس ہو گیا اور سبھی مذہب کے رہنما اپنی اپنی قوم کو متحد ہو کر ملک کے لئے لڑنے پر آمادہ کیے اور یہ کوشش رنگ لائی، بالآخر ہندو مسلم سکھ عیسائی بلکہ ساری قوم کے لوگوں کی اجتماعی محنت و مشقت اور مکمل کوششوں کے نتیجے میں ١٥ اگست ١٩٤٧ کو ہمارا وطن عزیز آزاد ہوا۔ آزادی کے بعد سب مل جل کر رہنے لگے۔ چاہے شادی بیاہ ہو یا میت و ماتم ہر محفل و مجلس میں لوگ ایک دوسرے کے یہاں جایا کرتے تھے اور ایک رشتہ دار کی طرح داہنا بازو بن کر ساتھ دیتے۔ میرا خود کا مشاہدہ ہے کہ میرے گاؤں میں جب بھی شادی بیاہ ہوتی تو پورے گاؤں کے سبھی ہندو مسلم کو ایک طرف سے دعوت ہوتی تھی اور سبھی لوگ شریک ہوتے تھے ، یہاں تک کہ باہری مہمانوں کو کھانا کھلانے وغیرہ میں بھی مدد کرتے تھے، دولہے کے ساتھ بارات بھی جاتے تھے۔ اسی طرح میت وغیرہ میں بھی بھر پور شریک رہا کرتے تھے۔ ہندو و مسلم کے بیچ اگر کوئی جھگڑا یا کوئی معاملہ درپیش ہوتا تو دونوں فریق کی جانب سے  پنچ بیٹھتا اور جس کی غلطی ثابت ہوجاتی تو اسی کی قوم کے رہنما و لیڈر کی ذریعے اس کو سزا دلائی جاتی تاکہ آپس میں کوئی نا اتفاقی پیدا نہ ہو جائے۔ سب کچھ اچھے سے گزر رہا تھا، لوگ بہ حیثیت انسان ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے لیکن جب سے موجودہ حکومت ٢٠١٤ میں مرکز پر قابض ہوئی تب سے یہاں کی دونوں بڑی قوموں (ہندو مسلم) کے درمیان تناؤ اور آپسی رنجش  دن بدن بڑتی جارہی ہے۔ کچھ علاقوں میں تو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گیے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلم قوم کو ٹارگیٹ کیا جانے لگا ہے۔ مسلمانوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اب حد تو یہ ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کے بچوں کو اسکولوں میں ستایا جانے لگا ہے۔ گزشتہ سال ایک لڑکی کو محض اس کے نقاب پہننے کی وجہ سے اسکول سے نہ صرف یہ کہ باہر کر دیا گیا بلکہ اس کے پیچھے بجرنگ دل کے غنڈے نعرے بازی کرتے ہوئے دوڑتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ اس طرح کے معاملات روزآنہ ہوتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں گزشتہ کچھ دنوں قبل کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں گپتا تیاگی نامی اسکول ٹیچر  ایک مسلم طالب علم کی پٹائی اسی لڑکے کے غیر مسلم ہم سبق ساتھی سے کروا رہی ہے اور اسے زور زور سے مارنے کو کہہ رہی ہے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ ملک کا ایسا ماحول کس نے بنایا؟ اس طرح کے لوگوں پر شکنجا کسنا کس کی ذمہ داری ہے؟ حکومت تو کرے گی نہیں۔ کیوں کہ اسے اپنی حکومت بچانے کی فکر ہے۔ تو عام لوگوں کو بیدار ہونا پڑے گا۔ جو سیکولر لوگ ہیں انہیں ملک کی حفاظت کی خاطر اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ اگر ملک کی حفاظت کرنی ہے تو اس کے لئے متحد ہوکر ہمیں بھائی چارگی کو پھر سے فروغ دینا ہوگا۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ جس دیش کو ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سے سینچ کر شاد و آباد کیا ہم اسے فریب کار سیاست دانوں کے ہاتھوں برباد ہونے نہیں دیں گے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں منی پور جیسا شرم ناک واقعہ ہونا اور اس پر مرکزی حکومت کی خاموشی اور اب تک مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچانا یقینا افسوس کا مقام ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک کو اور اس کی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے میں ہر ممکن کوشش کرے۔ ہندو مسلم جیسی منفی سیاست کو چھوڑ کر مثبت سیاست پر زور دے۔ ہر ہر قوم کے اک اک فرد کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا بھر پور خیال رکھے۔ یہاں کی عوام سے بھی اپیل ہے کہ اپنا دیش بہت بڑا ہے اور اس کا چرچا ہر جگہ ہے۔ اس لئے اس کی بقا اور خوشحالی کے لئے سارے لوگ مل جل کر آگے آئیں۔ جس طرح پہلے مل جل کر رہتے تھے اسی طرح رہیں تاکہ سب ترقی کریں۔ ملک کو خوشحال بنانے میں قوت صرف کرے۔


Program on understanding the sofi orders in india

Program on

"understanding the sofi orders in india"



Wednesday, March 8, 2023

Hamde Bari ta'ala





Hamde Bari ta'ala written by Dr Husain Mushahid Razvi sb which is presented by Dr Md Ihsanul Haque Jamei on The Annual Function Azmate Rasool Conference at Kennedy auditorium Aligarh Muslim University Aligarh Uttar Pradesh India. To see the video please go through the below 👇👇👇 link



Tuesday, March 7, 2023

قرأت سورہ فاتحہ

سر سید ہال ساؤتھ کے پروگرام کی شروعات تلاوت قرآن سے۔ 


قرأت سورہ تین

سر سید ہال ساؤتھ اے ایم یو میں پروگرام کی افتتاحی تقریب میں قرآن پاک کی قرأت کا حسین منظر




ان کی مہکنے دل غنچے کھلا دیے ہیں



Naat Shareef unki mahakne dilke gunche" written by Alahazrat fazile Barailvi Alaihir Rahma presented by Dr Md Ihsanul Haque Jamei on the stage of Kennedy auditorium Aligarh Muslim University Aligarh. The link is below 👇


صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا ۔۔۔نعت شریف

"Naat Shareef Subhe Taiba main hui batta hai bada noor ka" written by Alahazrat fazile Barailvi Alaihir Rahma presented by Dr Md Ihsanul Haque Jamei on the stage of Kennedy auditorium Aligarh Muslim University Aligarh. The link is below 👇





*آتشبازی کا موجد کون؟





*آتشبازی کا موجد کون؟

*

مفسر قرآن، حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی اپنی مختصر کتاب "اسلامی زندگی" میں فرماتے ہیں: ”اس رات (شب برأت) کو گناہ میں گزارنا بڑی محرومی کی بات ہے۔ آتشبازی کے متعلق مشہور یہ ہے کہ یہ نمرود بادشاہ نے ایجاد کی جبکہ اس نے حضرت سید نا ابراهیم خلیل الله على نبينا وَعَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام کو آگ میں ڈالا اور آگ گلزار ہوگئی تو اُس کے آدمیوں نے آگ کے انار بھر کر ان میں آگ لگا کر حضرت سید نا ابراهیم خلیل الله عَلى نَبِيْناءَ عَلَيْهِ الصَّلوةَ والسلام کی طرف پھینکے۔“

(اسلامی زندگی ص: 76، بحوالہ آقا کا مہینہ)

*پندرہویں شعبان کا روزہ






*پندرہویں شعبان کا روزہ


حضرت سیدناعلی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ نبی کریم، رؤف الرحیم عَلَيْهِ أفضل الصلوۃ والتسلیم کا فرمانِ عظیم ہے : جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام ( یعنی عبادت) کرو اور دن میں روزہ رکھو۔ بے شک اللہ تعالٰی غُروبِ آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور کہتا ہے : " ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ اُسے بخش دوں ! ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں! ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اُسے عافیت عطا کروں! ہے کوئی ایسا! ہے کوئی ایسا! اور یہ اُس وقت تک فرماتا ہے کہ فجر طلوع ہو جائے ۔“ (سُنَن ابن ماجه ج ۲ ص ١٦٠ حديث (۱۳۸۸)

*شب براءت اور قبروں کی زیارت





*شب براءت اور قبروں کی زیارت* 

ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ایک رات سرور کائنات، شہنشاہ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا تو بقیع پاک میں مجھے مل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کا رسول صلیٰ الله علیہ وسلم تمہاری حق تلفی کریں گے ؟ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے خیال کیا تھا کہ شاید آپ ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے، پس قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گنہگاروں کو بخش دیتا ہے۔ (سن ترمذی ج ۲ ص ۱۸۳ حدیث 739 )

*بھلائیوں والی راتیں*





*بھلائیوں والی راتیں* 

أمِّ الْمُؤْمِنِين حضرت عائشہ صديقه رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ جل جلالہ (خاص طور پر ) چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے: (۱) بقرعید کی رات (۲) عید الفطر کی (چاند) رات (۳) شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اس سال ) حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں (٤) عرفے کی (یعنی 8 اور 9 ذو الحجہ کی درمیانی ) رات اذانِ (فجر) تک۔ (تفسیر در منثور ج ۷ ص ٤٠٢ بحوالہ آقا کا مہینہ)

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی شب برأت میں دعا



*حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی دعا* 

یہ دعا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے جو پندرہویں شعبان کی رات میں مجرب بتایٔی گیٔی ہے

" اللهم إذ أطلعت ليلة النصف من شعبان على خلقك ، فَعُد علينا بِمَنك وعتقك، وقدر لنـا مـن فضلك واسعَ رزقك واجعلنا ممن يقوم لك فيها ببعض حقك. اللهم من قضيت فيها بوفاته، فاقض مع رحمتك، ومن قدرت طُول حياته، فاجعل له نعمتك، وبلغنا ما لا تبلغ الآمال إليه، يا خير من وقفت ذلك له ذلك مع الأقدام بين يديه يا رب العالمين، برحمتك يا أرحم الراحمين وصلى الله تعالى على سيدنا محمد خير خلقه، وعلى آله وصحبه أجمعين.

(ماذا فی شعبان : 109)

شب قدر و شب برأت میں کثرت سے پڑھیا جانے والی دعا





*شب قدر و شب برأت میں کثرت سے پڑھیا جانے والی دعا*

 اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي. اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ وَالْمُعَافَاةَ الدَّائِمَةَ فِي الدِّيْنِ وَالدُّنْيَا وَالْآخِرَةْ "

سال بھر جادو سے حفاظت کا عمل



*سال بھر جادو سے حفاظت* 

 علامہ احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
"اگر اس رات (یعنی شب براءت ) کو سات بیری کے پتے کو پانی میں جوش دے کر ( جب پانی نہانے کے قابل ہو جائے تو) غسل کرے ان شاء اللہ العزیز تمام سال جادو کے اثر سے محفوظ رہے گا." (اسلامی زندگی صفحه 135)

ماہ شعبان کی فضیلت و اہمیت



از قلم محمد مکرم رضا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 شعبان ایک ایسا مہینہ ہے جس کے بارے میں آقائے کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں "شعبان شهري ورمضان شهرالله " یعنی "شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ عزوجل کا مہینہ ہے." شعبان کو اس لئے شعبان کہا جاتا .
ہے کہ اس میں روزہ دار کے لئے خیر کثیر تقسیم ہوتی ہے شعبان کی برکت کے لئے دعا
ماہ شعبان عظمت وبرکت والا مہینہ ہے، کیونکہ آقائے کریم نے ۔اس میں خصوصیت سے خیروبرکت کے لئے دعا کی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا دخل رجب قال: "اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان" یعنی "جب رجب کا مہینہ آتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اے اللہ رجب اور شعبان میں ہمارے لئے برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔" 
شعبان ایسا مہینہ ہے جو رحمت وبخشش اور نجات ورہائی کا مژدۂ جانفزاں لے کر ہماری نگاہوں کا سرمۂ بصیرت بن کر جگمگاتا ہے 'ایسے تو ہرسال وماہ ,ہفتہ ودن,گھنٹہ ومنٹ, اور ہر لمحہ وساعت خدائے وحدہ لا شریک کی بنائی ہوئی ہے مگر کچھ ماہ, دن ,گھڑی اور لمحے ایسے ہیں جو اپنی یادوں, اور خصوصیتوں کے سبب اور دنوں سے ممتاز وافضل اور دوسری ساعتوں اور گھڑیوں سے مبارک وبہتر ہوتے ہیں "مثال کے طور پر رمضان شریف کا مہینہ, شب قدر, عاشورہ کا دن, شعبان المعظم کا مہینہ, شب برأت وعرفہ کادن، دسویں ذی الحجہ کی شب, محبوب رب العالمیں کی ولادت با سعادت کی شب, معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس رات ، اور عیدین کی راتیں ۔ یہ وہ اوقات ہوتے ہیں جو ہم گنہگاروں کو اللہ رب العزت نے عطا فرما کر ہمیں اپنی خاص رحمتوں عنایتوں اور مہربانیوں سے نوازا ہے اور اس لئے تاکہ ہم ان مبارک اوقات ولمحات میں اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں جن میں ہماری توبہ قبول ہوں مرادیں مانگیں تو مرادیں پوری ہوجائیں, عبادت وبندگی ,ذکر وتلاوت کلام اللہ اور درود شریف کی کثرت سے اپنے خالق ومالک کو راضی کرلیں اور اپنے گناہ معاف کروالیں۔  رب کی رحمتوں اور بخششوں کے مستحق ہوجائیں, اور ان لمحوں کی قدرومنزلت پہچانیں۔ اسی لئے ان لمحوں اور مبارک دنوں اور گھڑیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب، داناے غیوب ,حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وذكرهم بايام الله (سوره إبراهيم آيت نمبر5 ) ترجمہ "اے محبوب آپ مسلمانوں کو اللہ کے خاص دنوں کی یاد دلائیں" یہ ایسی مقدس اور بابرکت شب ہے جس کا قرآن پاک میں تذکرہ موجود ہے ذرا اندازہ لگائیں"یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہیں آج موقع ملا ہے تو اپنی قسمت پر ناز وفخر کریں۔ اج ہم سب شب بیداری کرکے اپنے رب کو راضی کرلیں پتا نہیں دوبارہ یہ شب ہماری زندگی میں میسر آئیگی یا نہیں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے گناہوں کی بخشش فرمائے اور ہمیں علم دین و عمل صالح کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین۔ 
از قلم
محمد مکرم رضا قادری 
متعلم 
جامعہ احسن البرکات
(مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ)





(نوٹ: اس مضمون میں جو بھی لکھا گیا ہے اس کے ذمہ دار خود محرر ہے، بلاگر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے)

Tuesday, January 11, 2022

सलाम ब-बारगाहे खैरुल अनाम

सलाम ब-बारगाहे खैरुल अनाम

या नबी सलाम अलैका, या रसूल सलाम अलैका
या हबीब सलाम अलैका, सलवातुल्लाह अलैका

आपका तशरीफ़ लाना, वक़्त भी कितना सुहाना
जगमगा उठा ज़माना, हूरें गाती थी तराना
या नबी सलाम अलैका…

ऐ मेरे मौला के प्यारे, नूर की आँखों के तारे
अब किसे सैयद पुकारें, हम तुम्हारे तुम हमारे
या नबी सलाम अलैका…

ऐ नसीमे कुए जाना, जब मदीने से तू आना
बूए ज़ुलफे शाह लाना , दिल परेशां है सुंघाना
या नबी सलाम अलैका…

भेज दो अपनी अताएं, बख्श दो सबकी ख़ताएँ
दूर हो ग़म की घटाएँ, वज्द में हम यूँ सुनाएँ
या नबी सलाम अलैका…

जब नबी पैदा हुए थे, सब मलक दर पर खड़े थे
रब्बे सल्लिम पढ़ रहे थे, बाअदब यूँ कह रहे थे
या नबी सलाम अलैका…

रहमतों के ताजवाले, दो जहां के राजवाले
अर्श के मेहराजवाले, आसियों की लाजवाले
या नबी सलाम अलैका…

जान कर काफी सहारा, ले लिया है दर तुम्हारा
ख़ल्क़ के वारिस ख़ुदारा , लो सलाम अब तो हमारा
या नबी सलाम अलैका…

Wednesday, October 18, 2017

کسب معاش کی اہمیت تعلیمات رسول ﷺکی روشنی میں

Saturday, August 13, 2016

غیبت اور اس کی تباہ کاریاں قرآن وحدیث کی روشنی میں

غیبت کی تعریف بہارِ شریعت میں
صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے غیبت کی تعریف اس طرح بیان کی ہے:کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۱۶ ص ۱۷۵)
غیبت کی تعریف از ابنِ جَوزی
حضرتِ علّامہ اَبُو الْفَرَج عَبْدُ الرَّحمٰن بِن جَوزِی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی نے اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں غیبت کی جو تعریف بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے:تو اپنے بھائی کو ایسی چیز کے ذَرِیعے یاد کرے کہ اگروہ سن لے یا یہ بات اسے پہنچے تو اسے ناگوار گزرے اگر چِہ تو اس میں سچّا ہو خواہ اس کی ذات میں کوئی نَقْص (خامی)بیان کرے یا اس کی عَقل میں یا اس کے کپڑو ں میں یا اس کے فعل یا قول میں کوئی کمی بیان کرے یا اس کے دین یا اس کے گھر میں کوئی نَقص (عیب)بیان کرے یا اس کی سواری یا اس کی اولاد، اس کے غلام یااس کی کنیز میں کوئی عیب بیان کرے یااس سےمتَعَلِّق (یعنی تعلُّق رکھنے والی)کسی بھی شے کا (برائی کے ساتھ)تذکرہ کرے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا کہ اس کی آستین یادامن لمباہے سب غیبت میں داخل ہیں ۔ (بَحْرُالدُّمُوع ص۱۸۷)
غیبت کی تباہ کاریاں ایک نظر میں
بَہُت سارے پرہیز گار نظر آنے والے لوگ بھی بِلا تکلُّف غیبت سنتے،سناتے،مسکراتے اور تائید میں سر نظر آتے ہیں، چُونکہ غیبت بَہُت زیادہ عام ہے اِ س لئے عُمُوماً کسی کی اِس طرف توجُّہ ہی نہیں ہوتی کہ ہالانکہ غیبت کرنے والا نیک پرہیز گار نہیں بلکہ فاسِق وگنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہوتا ہے۔قراٰن و حدیث اور اقوالِ بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین سے منتخب کردہ غیبت کی 20 تباہ کاریوں پر ایک سرسری نظر ڈالئے، شاید خائفین کے بدن میں جُھر جھری کی لہر دوڑ جائے!جگر تھام کر مُلاحَظہ فرمایئے:
*غیبت ایمان کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے *غیبت بُرے خاتمے کا سبب ہے*بکثرت غیبت کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی *غیبت سے نَماز روزے کی نورانیَّت چلی جاتی ہے *غیبت سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں*غیبت نیکیاں جلا دیتی ہے*غیبت کرنے والا توبہ کر بھی لے تب بھی سب سے آخِرمیں جنَّت میں داخِل ہوگا، اَلغَرض غیبت گناہِ کبیرہ، قطعی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام ہے*غیبت زنا سے سخت تر ہے*مسلمان کی غیبت کرنے والا سُود سے بھی بڑے گناہ میں گرفتار ہے*غیبت کو اگر سمندر میں ڈال دیا جائے تو سارا سمندر بدبُو دار ہو جائے*غیبت کرنے والے کو جہنَّم میں مُردار کھانا پڑے گا* غیبت مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مُترادِف ہے*غیبت کرنے والا عذابِ قبر میں گرفتار ہو گا! *غیبت کرنے والاتانبے کے ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینے کو بار بار چھیل رہا تھا* غیبت کرنے والے کو اُس کے پہلوؤں سے گوشت کاٹ کاٹ کر کِھلایا جا رہا تھا*غیبت کرنے والا قیامت میں کتّے کی شکل میں اٹھے گا *غیبت کرنے والا جہنَّم کا بندر ہو گا*غیبت کرنے والے کو دوزخ میں خود اپنا ہی گوشت کھانا پڑے گا*غیبت کرنے والا جہنَّم کے کھولتے ہوئے پانی اور آگ کے درمیان موت مانگتا دوڑرہا ہو گا اور اس سے جہنَّمی بھی بیزار ہوں گے* غیبت کرنے والا سب سے پہلے جہنَّم میں جائے گا۔
غیبت حرام ہونے کی حکمت
حضرتِ سیِّدُنا اِمام احمدبن حَجَرمَکِّی شَافِعِی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی نقل کرتے ہیں:کسی کی برائی بیان کرنے میں خواہ کوئی سچّا ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کی غیبت کو حرام قرار دینے میں حکمت مؤمن کی عزّت کی حفاظت ميں مبالَغہ کرنا ہے اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کی عزّت و حرمت اور اس کے حُقُوق کی بَہُت زیادہ تاکيد ہے، نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کی عزّت کو گوشت اور خون کے ساتھ تَشبیہ دے کر مزید پختہ و مُؤَکَّد کر دیا اور اس کے ساتھ ہی مبالَغہ کرتے ہوئے اسے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مُتَرادِف قرار دیا چُنانچِہ پارہ 26سورۃُ الحُجُرات آیت نمبر 12میں ارشاد فرمايا:
 اَیُحِبُّ  اَحَدُکُمْ  اَنۡ یَّاۡکُلَ  لَحْمَ اَخِیۡہِ  مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ
 (ترجَمہ کنزالایمان:کیا تم میں کوئی پسند کریگا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا)
عزّت کو گوشت سے تَشبيہ دینے کی وجہ يہ ہے کہ انسان کی بے عزّتی کرنے سے وہ ایسی ہی تکليف محسوس کرتا ہے جيسا کہ اس کا گوشت کاٹ کر کھانے سے اس کا بدن درد محسوس کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ۔ کيونکہ عقلمند کے نزديک مسلمان کی عزّت کی قيمت خون اور گوشت سے بڑھ کر ہے۔ سمجھدار آدمی جس طرح لوگوں کا گوشت کھانا اچّھا نہيں سمجھتا اسی طرح ان کی عزّت پامال کرنا بدرجہ اَولیٰ اچھا تصوُّر نہيں کرتا کيونکہ يہ ایک تکليف دِہ اَمر(یعنی مُعامَلہ)ہے اور پھر اپنے بھائی کا گوشت کھانے کی تاکيد لگانے کی وجہ يہ ہے کہ کسی کے لئے اپنے بھائی کا گوشت کھانا تو بَہُت دور کی بات ہے (معمولی سا)چبانا بھی ممکن نہيں ہوتا لیکن دُشمن کا مُعامَلہ اس کے برعکس ہے۔ (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر ج۲ ص۱۰)
سینوں سے لٹکے ہوئے لوگ
سرورِ کائنات،شاہِ موجودات، محبوبِ ربُّ الْارضِ وَالسَّمٰوت عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:معراج کی رات ميں ايسی عورَتوں اور مَردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک رہے تھے، تو ميں نے پوچھا:اے جبرئيل! يہ کون لوگ ہيں؟ عرض کی:يہ منہ پر عيب لگانے والے اور پيٹھ پيچھے برائی کر نے والے ہیں اور ان کے مُتَعَلِّق اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَیۡلٌ  لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ  لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱ (پ۳۰ اَلھُمَزہ:۱)
ترجَمہ کنزالایمان:خرابی ہے اس کے لئے جو لوگوں کے منھ پر عیب کرے، پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۵ص۳۰۹حدیث۶۷۵۰)
تانبے کے ناخُن
سرکارِ دو عالم،نُورِ مجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:میں شبِ معراج ایسی قوم کے پاس سے گزرا جو اپنے چہروں اورسِینوں کو تانبے کے ناخُنوں سے نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا :اے جِبرئیل !یہ کون لوگ ہیں؟ کہا:یہ لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے)تھے اور اُن کی عزّت خراب کرتے تھے۔  (سُنَنِ ابوداو،د ج ۴ ص۳۵۳حدیث ۴۸۷۸)
پہلوؤں سے گوشت کاٹ کر کھلانے کا عذاب
غیبت کے ایک اوردل ہلا دینے والے عذاب کی روایت سنئے اورتھر تھر کانپئے۔حضرتِ سیِّدُنا ابوسعید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرورِ کائنات،شاہِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس رات مجھے آسمانوں کی سَیر کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پہلوؤں سے گوشت کاٹ کر خُود ان ہی کو کھلایا جا رہا تھا ۔ ا نہیں کہا جاتا ،کھاؤ !تم اپنے بھائیوں کا گوشت کھایا کرتے تھے ۔ میں نے پوچھا :اے جبرئیل یہ کون ہیں؟ عرض کی:آقا!یہ لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔(دَلائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْھَقی ج۲ص۳۹۳،تَنبِیہُ الغافِلین ص۸۶)
جھنَّمی بندر وخِنزیر
 غیبت کی تباہ کاری تو دیکھئے کہ مشہور ولیُّ اللہ حضرتِ سیِّدُنا حاتِمِ اَصَمّ علیہ رَحمَۃُ اللہِ الاکرم فرماتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ:غیبت کرنے والاجہنَّم میں بندر کی شکل میں بدل جائے گا،جھوٹا دوزخ میں کُتّے کی شکل میں بدل جائے گا اور حاسد جہنَّم میں سُوَر کی شکل میں بدل جائے گا۔(تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص ۱۹۴)
غیبت ایمان کیلئے نقصان دہ ہے
محبوبِ ربُّ العباد عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:غيبت اور چغلی ايمان کو اس طرح کاٹ ديتی ہيں جس طرح چرواہا درخت کو کاٹ ديتا ہے۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۳ ص ۳۳۲ حدیث ۲۸)
مسلمان كی بے عزّتی كبیرہ گناہ ہے
رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ عالیشان ہے:بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں ميں سے ہے۔ (سُنَنِ ابوداو،د ج۴ ص۳۵۳حدیث۴۸۷۷)
خدا عزّوجل ومصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم كو ایذا دینے والا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزّت کا محافظ ہے مگر افسوس!ایسا نازک دور آ گیا ہے کہ اب اکثر مسلمان ہی دوسرے مسلمان بھائی کی عزّت کے پیچھے پڑا ہوا ہے جی بھر کر غیبتیں کررہا ہے اور چغلیاں کھا رہا ہے ، بِلا تکلُّف تہمتیں لگا رہا ہے ، بِلا وجہ دل دُکھا رہا ہے، دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کا مطبوعہ رسالہ ، ''ظلم کا انجام'' صَفْحَہ19تا20پر ہے:حقوقُ العباد کامُعامَلہ بڑا نازُک ہے مگر آہ! آج کل بے باکی کا دور دورہ ہے، عوام توکُجا خواص کہلانے والے بھی عُمُوماً اِس کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔غصّے کا مرض عام ہے اس کی وجہ سے اکثر''خواص''بھی لوگوں کی دل آزاری کر بیٹھتے ہیں او ر اس کی طرف ان کی بالکل توجُّہ نہیں ہوتی کہ کسی مسلمان کی بِلاوجہ شَرعی دل آزاری گناہ وحرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت ر حمۃاللہ تعالیٰ علیہ فتاوٰی رضویہ شریف جلد 24 صَفْحَہ 342 میں طَبَرانِی شریف کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:سلطانِ دو جہان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:
مَنْ اٰذٰی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللہ.
 (یعنی)جس نے (بِلاوجہِ شَرعی)کسی مسلمان کو ایذاء دی اُس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذاء دی۔  (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط ج۲ ص۳۸۷ حدیث ۳۶۰۷)
اﷲو رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذاء دینے والوں کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پارہ22 سورۃُ الْاَحزاب آيت 57 میں ارشاد فرماتاہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿۵۷
ترجَمہ کنزالایمان: بے شک جو ایذاء دیتے ہیں اللہ( عَزَّوَجَلَّ)اور اس کے رسول کوان پر اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کی لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور اللہ (عَزَّوَجَلَّ)نے ان کیلئے ذلّت کا عذاب تیارکررکھا ہے۔۲۲الاحزاب۵۷)
مومن كی حُرمت كعبے سے بڑھ كر ہے
سُنَنِ اِبنِ ماجہ میں ہے :خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کعبہ معظمہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا :مومن کی حُرمت تجھ سے زِیادہ ہے۔(سُنَنِ اِبن ماجہ ج۴ ص۳۱۹ حدیث ۳۹۳۲)
كامل مسلمان كی تعریف
سرکارِمدینہ منوّرہ،سردارِمکّہ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :
 اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ ۔   یعنی مسلمان وہ ہے کہ اس کے ہاتھ اور زَبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔
دوقبروں میں ہونے والے عذاب كے اسباب
حضرتِ سیدنااَبی بَکْرَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حُضور نبیِّ کریم، رء وفٌ رَّحیم علیہ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسلیم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ایک آدَمی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بائیں طرف تھا۔ دَریں اَثنا ہم نے اپنے سامنے دو قبریں پائیں تو محبوبِ خدائے تَوّاب ،نُبُوَّت کے آفتاب ،جنابِ رسالت مآب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے اَمر کی وجہ سے نہیں ہو رہا، تم میں سے کون ہے جو مجھے ایک ٹہنی لا دے۔ ہم نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو میں سبقت لے گیا اور ایک ٹہنی(یعنی شاخ)لے کر حاضرِ خدمت ہو گیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے دو ٹکڑے کردیئے اوردونوں قبروں پر ایک ایک رکھ دیا پھر ارشاد فرمایا:یہ جب تک تر رہیں گے ان پر عذاب میں کمی رہے گی اور ان دونوں کو غیبت اور پیشاب کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے۔(مُسند اِمام احمد ج۷ص۳۰۴ حدیث۲۰۳۹۵)
غیبت کرنے والے کی دعا قَبول نہیں ہوتی
حضرتِ سیِّدُنا فقیہ ابو للَّیث سمر قندی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں:تین آدَمیوں کی دُعا قَبول نہیں ہوتی(1)جو مالِ حرام کھاتا ہو (2)جو بکثرت غیبت کرتا ہو(3)جو کہ مسلمانوں سے حسد رکھتا ہو۔  (تَنبِیہُ الْغافِلین ص۹۵)
غیبت گویا نیکیاں پھینکنے کی مشین ہے
حضرتِ سیِّدُنافضیل بن عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: غیبت کرنے والے کی مثال اُس شخص جیسی ہے جومِنجَنیق(یعنی پتّھر پھیکنے کی ہاتھ سے چلائی جانے والی پُرانے دور کی مشین)کے ذَرِیعے اپنی نیکیوں کو مشرِق و مغرِب ہر طرف پھینکتا ہے۔ (تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص۱۹۳)
غیبت کی بدبُو
غیبت کرنے سے ایک مخصوص بدبُو نکلتی ہے ۔ پہلے جب کوئی غیبت کرتا تھا تو بدبو کے سبب سب کومعلوم ہو جاتاتھا کہ غیبت ہو رہی ہے!مگر اب غیبت کی اِس قَدَر کثرت ہو گئی ہے کہ ہر طرف اس کی بدبُو کے بھبکے اُٹھ رہے ہیں مگر ہمیں بدبو نہیں آتی کیونکہ ہماری ناک اس کی بدبُو سے اَٹ گئی ہے ۔ اس کو یوں سمجھئے کہ جب گٹر صاف کی جارہی ہوتی ہے تو عام شخص اُس کی بدبُو کے باعث وہاں کھڑا نہیں رَہ سکتا مگر بھنگی کو کچھ بھی پتا نہیں چلتا اس لئے کہ اس کی ناک اس گندگی کی بدبو سے اَٹ چکی ہوتی ہے۔ چُنانچِہ فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ جلد اوّل صَفْحَہ 720پر ہے:جھوٹ اور غیبت مَعنوی نَجاست(یعنی باطِنی گندگیاں )ہیں وَ لہٰذا جھوٹے کے منہ سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ حفاظت کے فرِشتے اُس وقت اُس کے پاس سے دُور ہٹ جاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں وارِد ہوا ہے اور اسی طرح ایک بدبو کی نسبت رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے خبر دی کہ یہ اُن کے منہ کی سَڑاند(یعنی بدبُو )ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں اور ہمیں جو جھوٹ یا غیبت کی بدبُو محسوس نہیں ہوتی اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اُس سے مالُوف (یعنی اس کے عادی )ہو گئے ہماری ناکیں اُس سے بھری ہوئی ہیں جیسے چمڑا پکانے والوں کے مَحَلّے میں جو رہتاہے اُسے اُس کی بد بُو سے ایذا نہیں ہوتی دوسرا آئے تو اُس سے ناک نہ رکھی جائے ۔مسلمان اِس نفیس فائدے (یعنی عمدہ نتیجے ) کو یاد رکھیں اور اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ)سے ڈریں، جھوٹ اور غیبت ترک کریں۔ کیا معاذَاللہ (عَزَّوَجَلَّ)منہ سے پاخانہ نکلنا کسی کو پسند ہوگا؟ باطِن کی ناک کُھلے تو معلوم ہو کہ جھوٹ اور غیبت میں پاخانے سے بد تر سڑاند (یعنی بدبو)ہے۔ رسولُ اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا:''جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی بدبو سے فرِشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔''  
(سُنَنِ تِرمِذی ج۳ص۳۹۲ حدیث ۱۹۷۹)
حضرتِ سیِّدُناجابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی ہم خدمتِ اقدس حُضور سیِّدِ عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم میں حاضر تھے کہ ایک بدبُو اُٹھی، رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا:جانتے ہو کہ یہ بدبو کیا ہے، یہ ان کی بدبو ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں۔
 (ذَمُّ الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۱۰۴ رقم۷۰)
غیبت گناہِ کبیرہ ہے
حضرت سیِّدُنا امام احمدبن حَجَر مَکِّی شَافِعِی علیہ ر حمۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں:صحیح احادیثِ مبارَکہ میں ہے کہ
(۱)غیبت سُود سے بڑھ کر ہے ۔
(۲)اگر اسے (یعنی غیبت کو)سمندر کے پانی میں ڈال دیاجائے تو اسے بھی بدبودار کر دے ۔
 (۳)(غیبت کرنے والے)دوزخ میں مُردار کھا رہے تھے ۔
(۴)ان (غیبت کرنے والوں)کی فَضا بدبودار تھی ۔
(۵)انہیں(یعنی غیبت کرنے والوں کو)قبروں میں عذاب دیا جا رہاتھا۔''
ان میں سے بعض احادیثِ مبارَکہ ہی اس کے کبیرہ ہونے کے لئے کافی ہیں،پس جب یہ ساری جمع ہو جائیں تو پھر غیبت کیونکر کبیرہ گناہ نہ کہلائے گی؟  (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر ج۲ ص ۲۸)
عالم کے بارے میں احتیاط کی حکایت
حضرتِ شیخ افضلُ الدّین علیہ رَحْمَۃُ اللہِ المُبین سے جب کسی عالمِ دین کے مقام کے بارے میں پوچھا جاتا تو (غیبت میں جاپڑنے کے خوف سے فرماتے:میرے علاوہ کسی اور سے پوچھو میں تو لوگوں کو کمال اور بہتری ہی کی نگاہ سے دیکھتا(اور ہر ایک کے بارے میں حُسنِ ظن سے کام لیتا )ہوں ،میرے پاس کشف نہیں جس کے ذَرِیعے ان کے اُن مقامات کی معلومات کر سکوں جو ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ کے یہاں ہیں ۔ اور حدیث شریف میں ہے : اَلظَّنُّ اَکْذَبُ الْحدِیث۱؎ (ترجمہ :بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔       (تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص۱۹۳)
عالم کی غیبت کرنے والا رحمت سے مایوس
افسوس!!آج کل مَعاذَاللہ عُلَماء کی بکثرت غیبت کی جاتی ہے۔لہٰذا شیطان کسی عالِم دین کی غیبت پر اُبھار ے تو حضرتِ سیِّدُناابو حَفص کبیرعلیہ رحمۃ اﷲالقدیر کے اِس ارشاد کو یاد کر کے خود کو ڈرایئے:جس نے کسی فَقیہ(عالِم)کی غیبت کی تو قِیامت کے روز اُس کے چِہرے پر لکھا ہو گا:''یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت سے مایوس ہے۔''  (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۷۱)
غیبت کے مختلف طریقے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غیبت صِرف زبان ہی سے نہیں اور طریقوں سے بھی کی جا سکتی ہے مثَلاً (1) اشارے سے(2)لکھ کر(3)مُسکرا کر(مَثَلاًآپ کے سامنے کسی کی خوبی بیان ہوئی اور آ پ نے طنزیہ انداز میں مسکرا دیا جس سے ظاہِر ہوتا ہو کہ''تم بھلے تعریف کئے جاؤ، میں اِس کو خوب جانتا ہوں!'')(4) دل کے اند ر غیبت کرنا یعنی بد گُمانی کو دل میں جَما لینا ۔ مَثَلاً بِغیر دیکھے بِلا دلیل یا بِغیر کسی واضِح قرینے کے ذِہن بنا لینا کہ'' فُلاں میں وفا نہیں ہے۔''یا فُلاں نے ہی میری چیز چُرائی ہے ''یا ''فُلاں نے یوں ہی گپ لگا دیا ہے''وغیرہ(5)اَلْغَرَض ہاتھ ،پاؤں،سر، ناک، ہونٹ ، زَبان ، آنکھ ، اَبرو ، پیشانی پر بل ڈال کریا لکھ کر، فون پر SMS کر کے ، انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے ذَرِیعے ، برقی ڈاک (یعنیE.MAIL)سے یا کسی بھی انداز سے کسی کے اندر موجود برائی یا خامی دوسرے کو بتائی جائے وہ غیبت میں داخِل ہے۔
غیبت نیکیوں کو جلا دیتی ہے
آہ!ہمارے مُعاشَرے کی بربادی ! افسوس صد کروڑ افسوس !غیبت کرنے اور سننے کی عادت نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے۔ مَنقول ہے:آگ بھی خُشک لکڑیوں کو اتنی جلدی نہیں جلاتی جتنی جلدی غیبت بندے کی نیکیوں کوجلا کر رکھ دیتی ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۱۸۳)
میری نیکیاں کہاں گئیں؟
غیبت کی تباہ کاریوں میں سے یہ بھی ہے کہ اِس کی وجہ سے نیکیاں ضائِع ہو جاتی ہیں جیسا کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب عَزَّوََجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا : بے شک قیامت کے روزانسان کے پاس اس کا کھلا ہو انامہ اعمال لایا جائے گا ،وہ کہے گا:میں نے جو فُلاں فُلاں نیکیاں کی تھیں وہ کہاں گئیں؟ کہا جائیگا:تُو نے جو غیبتیں کی تھیں اس وجہ سے مٹا دی گئی ہیں۔(اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۳ ص ۳۳۲ حدیث ۳۰ )
غیبت سننا بھی حرام ہے
خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گانا گانے اور گانا سننے سے اور غیبت کرنے اور غیبت سننے سے اور چغلی کرنے اور چغلی سننے سے منع فرمایا۔  (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۵۶۰حدیث۹۳۷۸)
حضرتِ علامہ عبد الرء ُوف مُناوِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں : غیبت سننے والا بھی غیبت کرنے والوں میں سے ایک ہوتا ہے۔
 (فیضُ القدیر ج۳ ص۶۱۲ تحتَ الحدیث۳۹۶۹)
غیبت سننے والا بھی غیبت کرنے میں شریک ہے

حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی یہ حدیثِ پاک نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: تو دیکھو کس طرح سلطانِ انبیاء صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم نے دونوں کو اس مسئلے میں جمع کیا (حالانکہ زبان سے صرف )ایک نے غیبت کی مگر دوسرے نے اسے سنا(لہٰذا وہ بھی غیبت میں شریک ٹھہرائے گئے)  (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۱۸۰)
غیبت سے روکنے کے چار فضائل
مسلمان کی غیبت کرنے والے کو روکنے کی قدرت ہونے کی صورت میں روک دینا واجِب ہے، روکنا ثوابِ عظیم اور نہ روکنا باعِث عذابِ الیم (یعنی درد ناک عذاب کاباعث)ہے اس ضِمْن میں چار فَرامینِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُلاحَظہ فرمایئے :
(1)جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس کی مدد پر قادِر ہو اور مدد کرے، اﷲ تعالیٰ دنیا اور آخِرت میں اس کی مدد کریگا اور اگر باوُجُودِ قدرت اس کی مدد نہیں کی تو اﷲ تعالیٰ دنیا اورآخِرت میں اسے پکڑے گا۔  (مُصَنَّف عَبد الرَّزّاق ج۱۰ ص۱۸۸ رقم ۲۰۴۲۶)
(2)جو شخص اپنے بھائی کے گوشت سے اس کی غیبت (عدم موجودگی)میں روکے(یعنی مسلمان کی غیبت کی جارہی تھی اس نے روکا )تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اُسے جہنَّم سے آزاد کر دے ۔  (مِشْکاۃُ الْمَصابِیح ج ۳ص ۷۰ حدیث ۴۹۸۱)
  (3)جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو سے روکے( یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نے منع کیا) تواللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اس کو جہنَّم کی آگ سے بچائے۔ اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:۔
 وَکَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿۴۷
 (ترجَمہ کنزالایمان:اور ہمارے ذمہ کرم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا۔  
۲۱ الروم:47) (شرحُ السنّۃ ج۶ ص۴۹۴ حدیث ۳۴۲۲)
  (4)جہاں مردِ مسلم کی ہَتکِ حُرمت(یعنی بے عزَّتی)کی جاتی ہو اور اس کی آبروریزی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اُس کی مدد نہ کی(یعنی یہ خاموش سنتا رہا اور اُن کومَنع نہ کیا)تو اﷲتعالیٰ اس کی مدد نہیں کرے گا جہاں اِسے پسند ہو کہ مدد کی جائے اور جو شخص مردِ مسلم کی مدد کرے گا ایسے موقع پر جہاں اُس کی ہتکِ حُرمت (یعنی بے عزّتی)اور آبرو ریزی کی جارہی ہو، اﷲتعالیٰ اُس کی مدد فرمائے گا ایسے موقع پر جہاں اسے محبوب (یعنی پسند)ہے کہ مدد کی جائے۔  (سُنَنِ ابوداو،د ج۴ ص۳۵۵حدیث ۴۸۸۴)
   عیب پوشی کیلئے جھوٹ جائز ہونے کی ایک صورت
غیبت میں ایک بَہُت بڑی آفت یہ بھی ہے کہ جب''ایک فرد''کی غیبت دوسرے کے سامنے کی جاتی ہے تو بعض اوقات وہ''ایک فرد''دوسرے کی نظر سے گر جاتا ہے اور شریعت کو یہ قَطعاًنا گوارہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی نظروں میں ذلیل وخوار (DEGRADE)ہو حتّٰی کہ مسلمان کی عزّت بچانے کی نیّت سے بعض صورَت میں جھوٹ بولنے کی بھی اِجازت ہے کیونکہ مسلمان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی شریعت میں نہایت ہی اہمیت ہے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ''بہارِ شریعت''حصّہ 16 صَفْحَہ 161پر ہے :''کسی نے چھپ کر بے حیائی کا کام کیا ہے، اس سے دریافت کیا گیا کہ تو نے یہ کام کیا؟ وہ انکار کرسکتا ہے کیونکہ ایسے کام کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردینا یہ دوسرا گناہ ہوگا۔ اسی طرح اگر اپنے مسلم بھائی کے بھید پرمُطَّلع ہو تو اس کے بیان کرنے سے بھی انکارکرسکتا ہے۔ ''  (رَدُّالْمُحتارج۹ ص۷۰۵
غیبت ایمان میں فساد پیدا کرتی ہے
حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:''غیبت بندہ مؤمن کے ایمان میں اس سے بھی جلدی فساد پیدا کرتی ہے جتنی جلدی آکلہ کی بیماری اُس کے جسم کوخراب کرتی ہے۔''(آکلہ پہلو میں ہونے والے اُس پھوڑے کو کہتے ہیں جس سے گوشت پوست (کھال)سڑ جاتے ہیں اور گوشت جھڑنے لگتا ہے)مزید فرمایا کرتے:اے ابنِ آدم!تم اُس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتے جب تک لوگوں کے عُیُوب تلاش کرنا ترک نہ کر دوجو عُیُوب تمہارے اپنے اندر پائے جاتے ہیں، تم اُن کی اِصلاح شروع کردو اور اُن عیبوں کو اپنی ذات سے دُور کرلو۔ پس جب تم ایسا کرو گے تو یہ چیز تمہیں اپنی ہی ذات میں مشغول کر دے گی۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ  کے نزدیک اِس طرح کا بندہ سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔                         ( ذَمُّ الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۹۳،۹۷ رقم۵۴،۶۰)
غیبت سے توبہ کا طریقہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں نَدامت کے ساتھ توبہ واِستِغفار کیجئے ۔ جس جس کی غیبت کی ہے اُس کیلئے دعائے مغفِرت کیجئے۔فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: غیبت کے کفّار ے میں یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے، اُس کے لیے اِستِغفار کرے، یہ کہے: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلَہ ٗ۔ یعنی الٰہی!ہمیں اور اُسے بخش دے ۔  (الدَّعَواتُ الْکَبِیرلِلْبَیْہَقِی ج۲ص۲۹۴حدیث۵۰۷)
 اگر نام یاد نہ رہے ہوںتو مشورۃً عرض ہے کہ ہو سکے تو روزانہ وقتاً فوقتاًیوں کہے:یااللہ عَزَّوَجَلَّ!میں نے آج تک جِتنی بھی غیبتیں کی ہیں اُن سے توبہ کرتا ہوں ۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ! َّ میری اور آج تک میں نے جن جن مسلمانوں کی غیبت کی ہے اُن سب کی اپنے محبوب صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلَّم کے صدقے مغفِرت فرما۔( یاد رہے !قَبولیّتِ توبہ کیلئے یہ بھی شرط ہے کہ اُس گناہ سے دل میں بیزاری اور آئندہ نہ کرنے کا عَزْم ہو ) ۔
(14)غیبت میں لذّت کی وجہ
    حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ایک مرتبہ کہیں تشریف لئے جارہے تھے،اِثنائے راہ شیطان کو دیکھا کہ ایک ہاتھ میں شہد اور دوسرے میں راکھ اُٹھائے چلا جارہا تھا، آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے پوچھا:اے دشمنِ خدا!یہ شہد اور راکھ تیرے کس کام آتی ہے؟بولا:شہدغیبت کرنے والوں کے ہونٹوں پر لگاتا ہوں تاکہ اس گناہ میں وہ اور آگے بڑھیں اور راکھ یتیموں کے چِہروں پر ملتا ہوں تاکہ لوگ ان سے نفرت کریں۔  (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۶۶)
بد گمانی بھی غیبت ہے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حکایت سے ہمیں عبرت کے بے شمار مَدَنی پھول چُننے کو ملتے ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کے بارے میں بدگمانی بھی غیبت ہے۔یعنی کسی واضح قرینے کے بِغیر کسی کے بارے میں بُرائی کو دل میں جما لینا کہ وہ ایسا ہی ہے بدگمانی کہلاتا ہے جو کہ غیبۃُ الْقَلب یعنی دل کی غیبت ہے۔ کسی کے سادہ لباس وغیرہ کودیکھ کر اُسے حقیر اور بھیک مانگنے والا فقیر جاننا بڑی بھول ہے۔ کیا معلوم ہم جسے حقیر تصوُّر کررہے ہیں وہ کوئی گدڑی کا لعل یعنی پہنچی ہوئی ہستی ہو۔ جیسا کہ مذکورہ حکایت سے ظاہر ہوا کہ وہ گدڑی پوش شخص کوئی عام آدمی نہیں خدا رسیدہ بزرگ تھے!

Monday, August 8, 2016

The benifits and Masail of Qurbani in the light of Holy Quran.

قربانی کے فضائل و مسا ئل                                      
مولانامحمد سلمان رضاجامعؔی ۔ علی گڑھ

                    اسلام کے معنی اطاعت و فرمانبرداری ، تسلیم و خود سپردگی کے ہیں جو خود رائی ، خود بینی ،خود سری اور سرکشی کے برعکس ہے ، اسلام کے تمام احکام میں یہی معنی نمایاں و ظاہر ہے کہ بندہ اپنے نفس اور شیطان کی مخالفت کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہمہ تن مشغول ہو جائے ، اپنی خواہش و مرضی کو چھوڑکر خدائے ذو الجلال کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے میں محو اور مصروف ہو جائے ،اپنی رائے اور ارادے کو مشیت خداوندی کے آگے قربان کردے ، خود سری کو ترک کرکے خود سپردگی کا شیوہ اختیار کرلے، خود بینی کو خیرباد کہہ کر حکم یزدانی کی تعمیل کو اپنا شعار بنالے ، قربانی کا معنی و مفہوم اور حقیقت قربانی یہی ہے۔
           قربانی کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :                   
             ﴿  فصل لربّک وانحر﴾  (التکاثر :۲)   تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ (کنز الایمان)
       قربانی کے متعدد فضائل اور اس کے اجر و ثواب کی بابت متعدد احادیث شریفہ واردہیں ۔
               حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نےعرض کیا یا رسول اللہﷺ ! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا:یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔صحابہ نےعرض کیا کہ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی ۔صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جن جانوروں کے بدن پر اون ہے کیا اس پر بھی کچھ ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ)
             ایک دوسرے مقام پر رسول اکرمﷺ نے فرمایا:                                                                                                                             قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو سب سے پسندیدہ عمل خون بہانا ہے ، یقیناً وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ،بال اور کھروں کےساتھ آئے گا ۔اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلےوہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت حاصل کر لیتا ہے ، تو تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو ۔ (جامع ترمذی،حدیث:۱۵۷۲)
              قربانی واجب ہوتے ہوئے اور مالی وسعت ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنا  بہت بڑی بد نصیبی اور نیکیوں سے محرومی کا اور رسول اکرمﷺ کی ناراضگی کا سبب ہے ۔یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وسعت ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنے والوں کو عید گاہ آنے سے روک دیا ہے۔                                                وجوب قربانی کے شرائط : (۱) مسلمان ہونا(۲)مقیم ہونا ، لہٰذا مسافر پر قربانی واجب نہیں البتہ نفلی طور پر کرے تو ثواب پائے گا (۳)مالک نصاب ہونا : یعنی قربانی کے دنوں میں ساڑھے سات تولہ (۹۳ گرام  ۳۱۲ملی گرام ) سونا یا ساڑھے باون تولہ (  ۶۵۳ گرام  ۱۸۴ ملی گرام)چاندی کا مالک ہونا یا حاجت اصلیہ کے علاوہ کسی ایسی چیزکا مالک ہوجس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابرہوتو وہ مالدار ہے، اس پر قربانی واجب ہے۔(۴) بالغ ہونا (۵) وقت کا پایا جانا ، یعنی دس ذی الحجہ کو صبح صادق سے بارہ ذی الحجہ کو غروب آفتاب تک  یعنی تین دن اور دو راتیں یہ قربانی کے دن ہیں اور انہیں کو ایام نحر کہا جاتا ہے ۔لیکن دسویں ذی الحجہ کا دن سب سے افضل ہے ،اس کے بعد گیارہ پھر بارہ۔
مسئلہ : اگر گھر  میں بیوی دونوں صاحب نصاب ہوں  تو دونوں پر قربانی واجب ہے۔ ایک کی قربانی دوسرے کو کافی نہیں ہوگی  بلکہ الگ الگ کرنا لازم ہے ۔اسی طرح اگر گھر کے تمام افراد مالک نصاب ہیں تو ان سب پر قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ : اگر کسی شخص پر قربانی واجب ہے اور دوسرے کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو پہلے اپنی قربانی کرے  پھر کسی مرحوم کی طرف سے یا  حضور اکرم ﷺ کی طرف سے  ،لیکن اگر کسی پر قربانی واجب نہیں تو دوسرے لوگوں کی طرف سے کرسکتا ہے ۔ خیال رہے کہ مالک نصاب پر ہر سال قربانی واجب ہے ، جو اسی کے نام سے ہوگی۔
قربانی کے جانور: اونٹ ،گائے، بھینس،بیل ، بکری، دنبہ ،بھیڑ نرو مادہ اور خصی و غیر خصی سب کی قربانی ہو سکتی ہے ۔ لیکن  اونٹ پانچ سال ، گائے بھینس بیل دو سال ، بکری ، دنبہ  اور بھیڑ ایک سال کی ہوں یا زیادہ کی ۔ اس سے کم کی ہوں تو جائز نہیں ۔
قربانی کا جانور موٹا تازہ ،خوبصورت بے عیب ہونا چاہئے۔ مثلاً اندھا، کانا،لنگڑا ، کان کٹا ،بہت زیادہ دبلا ،بے دانت کا ، تھن کٹی، تھن سوکھا ، ناک کٹا  ، بیمار،خنثی اور غلاظت کھانے والا ان سب کی قربانی جائز نہیں ۔
 مسئلہ : سینگ اگر پیدائشی نہ ہویا درمیان سے ٹوٹ گیا ہوتو  اس کی قربانی جائز  ہے ۔ اسی طرح اگر قربانی کرتے وقت جانور اچھلا کودا، اور عیب دار ہو گیا تو حرج نہیں ۔ (در مختار، رد المختار)
 جس  جانور کے دانت نہ ہوں  یا جس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں ، اس کی قربانی نا جائز ہے بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا نا جائز ہونے کے لئے کافی ہے اور گائے بھینس میں دو خشک ہوں تو نا جائز ہے ۔ جس کی ناک کٹی ہو یا خنثیٰ جانوریعنی جس میں نرو مادہ دونوں علامتیں ہوں اور جلّا لہ جو صرف غلیظہ کھاتا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے ۔ (در مختار)  
قربانی کے جانور میں شرکت : اونٹ ، گائے،بیل اور بھینس میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں ، لیکن شرکا  میں سے کسی کا حصہ ساتویں سے کم نہ ہو ۔اگر کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوا تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔ہاں البتہ  ساتویں حصہ سے زیادہ ہو سکتا ہے  مثلاً گائے، اونٹ یا بیل کی قربانی میں چار، پانچ یا چھ افراد شریک ہوکر قربانی کریں تو پھر ایسا ہو سکتا ہے ۔ (در مختار، رد المختار)  
قربانی کا گوشت اورکھال: قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں۔ ایک حصہ فقیروں اور غریبوں کو دیں  اور ایک دوستوں عزیزوں کو دیں  اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے رکھیں ۔ اگر گھر کے افراد زیادہ ہو ں تو سب کا سب گھر والوں کے لئے رکھا جا سکتا ہے اور سارے کا سارا صدقہ بھی کیا سکتا ہے ۔ (فتاوی ہندیہ)
قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے ۔اسی طرح قصائی کو ذبح کرنے کی اجرت میں دینا بھی جائز نہیں ۔اجرت علاحدہ سے دینی چاہئے۔اسی طرح  قربانی کا گوشت غیر مسلم جیسے عیسائی ،یہودی،مجوسی اور ہندو وغیرہ کو دینا نا جائز ہے ۔
قربانی کی کھال  کے بہتر ین مصارف غربا ،فقرا اور دینی مدارس ہیں ، البتہ اسے اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے رکھنا جائز ہے مثلاً جائےنماز،کتابوں کی جلد اور جوتہ وغیرہ کوئی بھی چیز بنا کر استعمال کی جا سکتی ہے لیکن ان چیزوں کو کرایہ پر دینا جائز نہیں،اگر دے دیں تو جو کرایہ ملے اس کا صدقہ کردینا واجب ہے۔
قربانی کی گائے میں جو لوگ شریک ہوں ،وہ کھال میں بھی اپنے اپنے حصے کے برابر شریک ہوں گے کسی ایک شریک کو یہ کھال باقی شرکا سے اجازت لئے بغیر اپنے پاس رکھ لینا یا کسی کو دے دینا درست نہیں ۔    
خیال رہے کہ ایسے مبارک موقع پر ہمیں غربا و فقرا کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ امرا کو تو دعوت دیتے ہیں لیکن غربا کی طرف توجہ نہیں دیتے ایسا کرنا ایک مسلمان کے لئے نا مناسب ہے۔
قربانی کا طریقہ:قربانی کرنے سے پہلےجانور کو چارہ پانی دیں ، بھوکا پیاسا ذبح نہ کریں اور ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور ذبح نہ کریں ۔چھری پہلے سے خوب تیز کرلیں پھر جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھیں اور جلدی سے ذبح کردیں ، ذبح کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل دعا پڑھیں :
إنّي وَجَّهتُ وَجهِيَ لِلَّذي فَطَرَ السَّماواتِ وَالأَرضَ حَنيفًا ۖ وَما أَنا مِنَ المُشرِكين• إِنَّ صَلاتي وَنُسُكي وَمَحيايَ وَمَماتي لِلَّهِ رَبِّ العالَمينَ•لا شَريكَ لَهُ ۖ وَبِذٰلِكَ أُمِرتُ وَأَنا أَوَّلُ المُسلِمينَ •اللھم لک و منک•
یہ دعا پڑھنے کے بِسمِ اللہُ اَللہُ اَکْبَر پڑھ کر  ذبح کریں ،جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے نہ تو اس کے پاؤں کاٹیں اورنہ کھل اتاریں ۔
ذبح کے بعد کی دعا :اَلَلّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیلِکَ اِبْرَاھِیمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَ حَبِیْبِکَ محُمَّدٍ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ۔
اور اگر قربانی اپنی طرف سے نہیں بلکہ کسی دوسرے کی طرف سے ہے تو منی کی جگہ  من کہہ کر اس شخص کا نام لیں ،جس کی طرف سے قربانی ہے اور اگر قربانی سات افراد کی طرف سے ہے تو من کے بعد ان سات افراد کے نام لئے جائیں ، جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے۔
           قارئین ! اس میں کوئی شک نہیں کہ قربانی کے بےشمار فوائد ہیں اور رضائے الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے لیکن یاد رہے کہ وہی قربانی بارگاہ رب العزت میں قابل قبول اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاسبب ہےجو ریا کاری ،شہرت اور دنیوی منفعت سے خالی ہو اورخلاف شریعت جملہ امور سےمحفوظ ہو۔اور قربانی سے مقصود  صرف بہ صرف اللہ تعالیٰ لی رضا ہو ۔



                                   

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان  تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے ساتھ زیادتی آزاد ملک میں نہایت شرمناک بات ہے از قلم: محمد احسان الحق جامعی...