Wednesday, October 18, 2017

کسب معاش کی اہمیت تعلیمات رسول ﷺکی روشنی میں

اسلام چوں کہ ایک آفاقی مذہب ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات کو پوری امت کے لیے لائحۂ عمل قرار دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کو زندگی گزارنے کے سارے اصول وضوابط اور تمام جزئیات سے آگاہ فرمایا ،حتی کہ کھانے پینے ،پہننے اوڑھنے ،اور رہنے سہنے کے آداب سے لیکرزندگی گزارنے کے سارے لوازمات سے گاہ فرمایا، اور ان کے حدود وقیود بھی بیان فرمائے۔اور چوں کہ کسب معاش اور طلب رزق زندگی گزارنے کے اہم لوازمات میں سے ہیں اس لیے حضور ﷺ نے اس باب کو بھی خالی نہ چھوڑا بلکہ آپ خود کسب معاش سے منسلک رہے اور اپنے اصحاب ،بلکہ ساری امت کو بھی اس کی طرف رغبت دلائے ۔یہاں تک کہ اس کے لیے مستقل اصول وضوابط بھی بتائے ،اور تجارت وغیرہ میں فائدے کمانے اور نفع حاصل کرنے کے مختلف طریقے بھی بیان فرمائے ۔ یہ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کی ساری تعلیمات وحی الہی کے تحت ہیں اور اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ میرے بندوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کون سا نظام مفید ہے اور کون سا نظام مضر ہے ۔لہذا جو حضور ﷺ نے جوفرما دیا وہی حتمی اور آخری فیصلہ ہے ،خواہ ایک عام انسان کی سمجھ میں آئے یا نہیں ۔
کسب معاش اور تلاش رزق کے باب میں حضور ﷺ کی بے شمار تعلیمات ہیں جن کے ذریعے آپ نے اپنی امت کواس طرف رغبت دلائی، اور ساتھ ہی کسب معاش کے مختلف آداب سکھائے۔ ذیل میں آپ کی چند تعلیمات وفرمودات بطور افادہ پیش کیے جارہے ہیں :(1)آپ فرماتے ہیں:رزق حلال کی تلاش ہر مسلمان پر واجب ہے(کنز العمال:11)۔(2)اسی طرح آپ فرماتے ہیں :حلال کمائی طلب کرنا فرض ہے(معجم کبیر للطبرانی:38)۔(3)حضور ﷺ سے ایک بار پوچھا گیا یارسول اللہ !کسب کا کون سا طریقہ سب سے زیادہ پاکیزہ ہے ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا :آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور اچھی بیع کرنا۔(مشکوٰۃ،ص:242)یعنی اس طرح خرید وفروخت کرنا کہ جو دغا ،دھوکا اور غبن وغیرہ سے پاک ہووہ بیع سب سے بہتر کمائی ہے۔(4)آپ فرماتے ہیں :کہ بیشک اللہ تعالیٰ ایسے مؤمن بندے کو پسند فرماتا ہے جو پیشہ ورہو۔(ترمذی)(5)آپ فرماتے ہیں :اپنے ہاتھ سے محنت کی کمائی سے بہتر کوئی کمائی نہیں ہے۔اور آدمی جو کچھ بھی اپنے اوپر ،اپنے بال بچوں پر ،اور اپنے خادموں پر صرف کرتا ہے وہ صدقہ ہے(معجم کبیر للطبرانی:17)۔(6)آپ رزق حلال کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :رزق حلال کو طلب کرنا ایک قسم کا جہاد ہے۔(کنز العمال:34)(7)آپ اپنی امت کو طلب معاش سے غفلت نہ برتنے اوراپنے اوقات کو اس کے کسب میں لگانے کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:"جب نماز فجر ادا کر لو تو طلب رزق سے غافل نہ ہو کر سو نہ جاؤ "یعنی نماز فجر ادا کر لینے کے بعد کسب معاش میں لگ جاؤ(حوالہ)اسی طرح سورۂ جمعہ میں بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ جب جمعے کی نماز ادا کر لو تو کسب معاش کے لیے اللہ کی وسیع زمیں پر پھیل جاؤ۔
چوں کہ کسب معاش کا سب سے اہم ترین ذریعہ تجارت ہے ،اور اس میں کم نقصان اور زیادہ نفع کا امکان ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے خود بھی تجارت فرمائی اور اپنی امت کو بھی اس کی ترغیب دی ،اور تجارت کی کمائی کو پاکیزہ کمائی قرار دیا ،اور تجارت میں سچائی اختیار کرنے اور نرمی برتنے کی تعلیم دی ،کیوں کہ یہ دونوں چیزیں فروغ تجارت کے لیے نہایت اہم ہیں ۔
(8)چنانچہ آپ فرماتے ہیں :سب سے پاکیزہ کمائی ان تاجروں کی ہے جو بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں ،جب انہیں امانت دی جائیں تو خیانت نہ کریں ،وعدہ کریں تو اس کی خلاف ورزی نہ کریں ، جب دوسرے سے خریدیں تو سامان میں بے جا برائی بیان نہ کریں ،اور اپنی چیزیں بیچیں تو اس کی تعریف میں مبالغہ آرائی نہ کریں ،ان پر کسی کا آتا ہو تو ادائیگی میں ٹال مٹول نہ کریں اور ان کا دوسرے پر آتا ہو تو وصولنے میں سختی نہ برتیں۔(بیہقی،کنز العمال:65)۔(9)اسی طرح سچے تاجروں کے اعلیٰ مقام کو بتاتے ہوئے آپ ارشاد فرماتے ہیں :سچے ،امانت دار تاجر(بروز قیامت)انبیاء ،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوں گے۔(بیہقی ،کنز العمال:147)
کسب معاش کے لیے تجارت ہو ،حرفت وصنعت ہویا کوئی اور پیشہ بہر حال اگر وہ جائز ہے تو اس کی  بڑی اہمیت ہے،لیکن پیشہ اختیار کرنے کی مکمل قدرت ہونے کے باوجود گدائی اختیار کرنا اور بلا حاجت دست  سوال دراز کرنا باعث ننگ وعار ہونے کے ساتھ ساتھ  ایک بد نما عیب بھی ہے ،جو ایک باشرف آدمی کی شان کے بالکل خلاف ہے ۔اس لیے حضور ﷺ نے جہاں کسب حلال کی ترغیب دلائی وہیں بلاحاجت دست دراز کرنے سے منع ہی نہیں بلکہ اس پر سخت وعید بھی فرمائی۔(10)چنانچہ آپ فرماتے ہیں :جو شخص بغیر حاجت کے مانگ کر کھاتا ہے گویا وہ انگارا کھاتا ہے۔(مسند احمد)
ہاں لاچاری اور مجبوری کے وقت اس کی اجازت ہے لیکن اس میں بھی اس بات کی شرط ہے کہ عام لوگوں سے نہ مانگے،بلکہ صالح اور نیک لوگوں سے ہی مانگے ۔(9)جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ہے کہ فراسی نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ کیامیں مانگوں؟تو آپ نے ارشاد فریایا:نہیں !اور اگر کوئی چارۂ کار نہ ہوتو صالحین سے مانگو(ابوداؤد:1403)اس کی چند وجوہات بیان کی جاتی ہیں (1)صالح عیب کو چھپائے گا اور ہرگز اس کی عیب کو ظاہر نہیں کرےگا (2)اورصالح اپنی حلال کمائی سے دے گا۔(3)اسی طرح صالح ان کے لیے دعائے خیر کرے گا اور بارگاہ الٰہی میں ان کی دعا مقبول ہوگی جس سے ان کی  حاجت روائی ہوجائے گی۔
بہر حال ہمیں حضور ﷺ کی تعلیمات پر یقین کامل رکھتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے ،اور آپ نے زندگی گزارنے کے جو بھی اصول ا ورطریقے بتائے ہیں  ہمیں ان کو اپنا معمول زندگی بنانا چاہیے ،کیوں کہ حضور ﷺ کی تعلیمات کسی بھی چیز کے بارے میں  ہو،دنیاوی فلاح وبہبود کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابی وکامرانی کا بھی ضامن ہے ،اس لیے اگر ہم اپنے معمولات زندگی کو تعلیمات نبوی ﷺکے طرز پر ڈھالیں تو یقینا ہم دنیا میں فلاح وکامراں جیتے ہوئے آخرت میں سرخ رو بھی ہوسکتے ہیں ۔اور چوں کہ حضور ﷺنے کسب معاش کی تعلیم دی ہے، اور گداگیری اورمحتاجگی کو حتی المقدور ختم کرکے اپنی  زندگی کو خوشگواربنانے  کی  تلقین کی ہے، اس لیے ہر شخص کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ کوئی نہ کوئی  حرفہ وپیشہ اختیار کرکے معاش کو بہتر بنائیں اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کوبھی ترقی کی راہ پر گامزن کریں ۔اور بےروزگاری کی عظیم مصیبت سے خود بھی نجات پائیں اور دوسروں کو بھی نجات دلائیں۔وباللہ التوفیق۔
محمد احسان الحق جامعیؔ کشن گنجوی
شعبۂ عربی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، یوپی. انڈیا

No comments:

Post a Comment

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان  تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے ساتھ زیادتی آزاد ملک میں نہایت شرمناک بات ہے از قلم: محمد احسان الحق جامعی...