قربانی کے فضائل و مسا ئل
مولانامحمد سلمان رضاجامعؔی ۔ علی گڑھ
اسلام کے معنی اطاعت و
فرمانبرداری ، تسلیم و خود سپردگی کے ہیں جو خود رائی ، خود بینی ،خود سری اور
سرکشی کے برعکس ہے ، اسلام کے تمام احکام میں یہی معنی نمایاں و ظاہر ہے کہ بندہ
اپنے نفس اور شیطان کی مخالفت کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہمہ تن مشغول ہو جائے
، اپنی خواہش و مرضی کو چھوڑکر خدائے ذو الجلال کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے میں
محو اور مصروف ہو جائے ،اپنی رائے اور ارادے کو مشیت خداوندی کے آگے قربان کردے ،
خود سری کو ترک کرکے خود سپردگی کا شیوہ اختیار کرلے، خود بینی کو خیرباد کہہ کر
حکم یزدانی کی تعمیل کو اپنا شعار بنالے ، قربانی کا معنی و مفہوم اور حقیقت
قربانی یہی ہے۔
قربانی
کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ فصل لربّک وانحر﴾ (التکاثر :۲) تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ (کنز
الایمان)
قربانی کے
متعدد فضائل اور اس کے اجر و ثواب کی بابت متعدد احادیث شریفہ واردہیں ۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابۂ
کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نےعرض کیا یا رسول اللہﷺ ! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ تو
آپﷺ نے فرمایا:یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔صحابہ نےعرض
کیا کہ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا فائدہ یہ ہے کہ
تمہیں قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی ۔صحابۂ کرام رضی
اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جن جانوروں کے بدن پر اون ہے کیا اس
پر بھی کچھ ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے ۔ (سنن
ابن ماجہ)
ایک دوسرے مقام پر رسول
اکرمﷺ نے فرمایا:
قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو سب سے پسندیدہ عمل خون بہانا
ہے ، یقیناً وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ،بال اور کھروں کےساتھ آئے گا ۔اور
قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلےوہ
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت حاصل کر لیتا ہے ، تو تم خوش دلی کے ساتھ
قربانی کیا کرو ۔ (جامع ترمذی،حدیث:۱۵۷۲)
قربانی
واجب ہوتے ہوئے اور مالی وسعت ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنا بہت بڑی بد نصیبی اور نیکیوں سے محرومی کا اور
رسول اکرمﷺ کی ناراضگی کا سبب ہے ۔یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وسعت ہوتے ہوئے قربانی نہ
کرنے والوں کو عید گاہ آنے سے روک دیا ہے۔ وجوب قربانی کے شرائط : (۱) مسلمان ہونا(۲)مقیم ہونا ، لہٰذا مسافر پر قربانی واجب
نہیں البتہ نفلی طور پر کرے تو ثواب پائے گا (۳)مالک نصاب ہونا : یعنی قربانی کے
دنوں میں ساڑھے سات تولہ (۹۳ گرام ۳۱۲ملی
گرام ) سونا یا ساڑھے باون تولہ ( ۶۵۳
گرام ۱۸۴ ملی گرام)چاندی کا مالک ہونا یا
حاجت اصلیہ کے علاوہ کسی ایسی چیزکا مالک ہوجس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے
برابرہوتو وہ مالدار ہے، اس پر قربانی واجب ہے۔(۴) بالغ ہونا (۵) وقت کا پایا جانا
، یعنی دس ذی الحجہ کو صبح صادق سے بارہ ذی الحجہ کو غروب آفتاب تک یعنی تین دن اور دو راتیں یہ قربانی کے دن ہیں
اور انہیں کو ایام نحر کہا جاتا ہے ۔لیکن دسویں ذی الحجہ کا دن سب سے افضل ہے ،اس
کے بعد گیارہ پھر بارہ۔
مسئلہ : اگر گھر میں بیوی
دونوں صاحب نصاب ہوں تو دونوں پر قربانی
واجب ہے۔ ایک کی قربانی دوسرے کو کافی نہیں ہوگی
بلکہ الگ الگ کرنا لازم ہے ۔اسی طرح اگر گھر کے تمام افراد مالک نصاب ہیں
تو ان سب پر قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ : اگر کسی شخص پر قربانی واجب ہے اور دوسرے کی طرف سے قربانی
کرنا چاہے تو پہلے اپنی قربانی کرے پھر
کسی مرحوم کی طرف سے یا حضور اکرم ﷺ کی
طرف سے ،لیکن اگر کسی پر قربانی واجب نہیں
تو دوسرے لوگوں کی طرف سے کرسکتا ہے ۔ خیال رہے کہ مالک نصاب پر ہر سال قربانی
واجب ہے ، جو اسی کے نام سے ہوگی۔
قربانی کے جانور: اونٹ ،گائے، بھینس،بیل ، بکری، دنبہ ،بھیڑ نرو مادہ اور خصی
و غیر خصی سب کی قربانی ہو سکتی ہے ۔ لیکن اونٹ پانچ سال ، گائے بھینس بیل دو سال ، بکری ،
دنبہ اور بھیڑ ایک سال کی ہوں یا زیادہ کی
۔ اس سے کم کی ہوں تو جائز نہیں ۔
قربانی کا جانور موٹا تازہ ،خوبصورت بے عیب ہونا چاہئے۔
مثلاً اندھا، کانا،لنگڑا ، کان کٹا ،بہت زیادہ دبلا ،بے دانت کا ، تھن کٹی، تھن سوکھا
، ناک کٹا ، بیمار،خنثی اور غلاظت کھانے
والا ان سب کی قربانی جائز نہیں ۔
مسئلہ : سینگ اگر پیدائشی نہ ہویا درمیان سے ٹوٹ گیا ہوتو اس کی قربانی جائز ہے ۔ اسی طرح اگر قربانی کرتے وقت جانور اچھلا
کودا، اور عیب دار ہو گیا تو حرج نہیں ۔ (در مختار، رد المختار)
جس جانور کے دانت نہ ہوں یا جس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں ، اس کی
قربانی نا جائز ہے بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا نا جائز ہونے کے لئے کافی ہے اور
گائے بھینس میں دو خشک ہوں تو نا جائز ہے ۔ جس کی ناک کٹی ہو یا خنثیٰ جانوریعنی
جس میں نرو مادہ دونوں علامتیں ہوں اور جلّا لہ جو صرف غلیظہ کھاتا ہو ان سب کی
قربانی ناجائز ہے ۔ (در مختار)
قربانی کے جانور میں شرکت : اونٹ ، گائے،بیل اور بھینس میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں
، لیکن شرکا میں سے کسی کا حصہ ساتویں سے
کم نہ ہو ۔اگر کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوا تو کسی کی قربانی نہیں
ہوگی۔ہاں البتہ ساتویں حصہ سے زیادہ ہو
سکتا ہے مثلاً گائے، اونٹ یا بیل کی
قربانی میں چار، پانچ یا چھ افراد شریک ہوکر قربانی کریں تو پھر ایسا ہو سکتا ہے ۔
(در مختار، رد المختار)
قربانی کا گوشت اورکھال: قربانی
کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں۔ ایک حصہ فقیروں اور غریبوں کو دیں اور ایک دوستوں عزیزوں کو دیں اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے رکھیں ۔ اگر
گھر کے افراد زیادہ ہو ں تو سب کا سب گھر والوں کے لئے رکھا جا سکتا ہے اور سارے
کا سارا صدقہ بھی کیا سکتا ہے ۔ (فتاوی ہندیہ)
قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے ۔اسی طرح قصائی کو ذبح
کرنے کی اجرت میں دینا بھی جائز نہیں ۔اجرت علاحدہ سے دینی چاہئے۔اسی طرح قربانی کا گوشت غیر مسلم جیسے عیسائی
،یہودی،مجوسی اور ہندو وغیرہ کو دینا نا جائز ہے ۔
قربانی کی کھال کے
بہتر ین مصارف غربا ،فقرا اور دینی مدارس ہیں ، البتہ اسے اپنے اور اپنے اہل وعیال
کے لئے رکھنا جائز ہے مثلاً جائےنماز،کتابوں کی جلد اور جوتہ وغیرہ کوئی بھی چیز
بنا کر استعمال کی جا سکتی ہے لیکن ان چیزوں کو کرایہ پر دینا جائز نہیں،اگر دے
دیں تو جو کرایہ ملے اس کا صدقہ کردینا واجب ہے۔
قربانی کی گائے میں جو لوگ شریک ہوں ،وہ کھال میں بھی اپنے
اپنے حصے کے برابر شریک ہوں گے کسی ایک شریک کو یہ کھال باقی شرکا سے اجازت لئے
بغیر اپنے پاس رکھ لینا یا کسی کو دے دینا درست نہیں ۔
خیال رہے کہ ایسے مبارک موقع پر ہمیں غربا و فقرا کو فراموش
نہیں کرنا چاہئے ۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ امرا کو تو دعوت دیتے ہیں لیکن غربا
کی طرف توجہ نہیں دیتے ایسا کرنا ایک مسلمان کے لئے نا مناسب ہے۔
قربانی کا طریقہ:قربانی کرنے سے پہلےجانور کو چارہ پانی دیں ، بھوکا پیاسا
ذبح نہ کریں اور ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور ذبح نہ کریں ۔چھری پہلے سے خوب
تیز کرلیں پھر جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو
اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھیں اور جلدی سے ذبح کردیں ، ذبح کرنے سے
پہلے مندرجہ ذیل دعا پڑھیں :
إنّي وَجَّهتُ وَجهِيَ لِلَّذي فَطَرَ السَّماواتِ وَالأَرضَ
حَنيفًا ۖ وَما أَنا مِنَ المُشرِكين• إِنَّ صَلاتي وَنُسُكي وَمَحيايَ
وَمَماتي لِلَّهِ رَبِّ العالَمينَ•لا شَريكَ لَهُ ۖ وَبِذٰلِكَ أُمِرتُ وَأَنا أَوَّلُ المُسلِمينَ •اللھم لک و منک•
یہ دعا پڑھنے کے بِسمِ اللہُ اَللہُ اَکْبَر پڑھ کر ذبح کریں ،جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے نہ تو
اس کے پاؤں کاٹیں اورنہ کھل اتاریں ۔
ذبح کے بعد کی دعا :اَلَلّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ
مِنْ خَلِیلِکَ اِبْرَاھِیمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَ حَبِیْبِکَ محُمَّدٍ صَلَّی
اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ۔
اور اگر قربانی اپنی طرف سے نہیں بلکہ کسی دوسرے کی طرف سے
ہے تو منی کی جگہ من کہہ کر اس شخص کا نام
لیں ،جس کی طرف سے قربانی ہے اور اگر قربانی سات افراد کی طرف سے ہے تو من کے بعد
ان سات افراد کے نام لئے جائیں ، جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے۔
قارئین ! اس میں کوئی شک نہیں کہ قربانی کے
بےشمار فوائد ہیں اور رضائے الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے لیکن یاد رہے کہ وہی قربانی
بارگاہ رب العزت میں قابل قبول اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاسبب ہےجو ریا کاری
،شہرت اور دنیوی منفعت سے خالی ہو اورخلاف شریعت جملہ امور سےمحفوظ ہو۔اور قربانی
سے مقصود صرف بہ صرف اللہ تعالیٰ لی رضا
ہو ۔
No comments:
Post a Comment