Wednesday, December 9, 2015

ɪmam ahmad raza and tasauf

امام احمد رضا  اور تصوف

یہ مقالہ ہندوستان کے مشہور اخبار، روزنامہ اودھ نامہ اورروزنامہ متاع آخرت میں شائع ہوچکا ہے نوٹ: -    
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سلسلۂ قادریہ کے عظیم بزرگوں میں سے ہیں۔ جس طرح آپ کی عالمانہ شخصیت ظاہر وباہر ہے اسی طرح صوفیانہ زندگی بھی واضح اور روشن ہے۔کیوں کہ آپ کی پوری زندگی صوفیانہ کردار وعمل سے مزین اور آراستہ وپیراستہ نظر آتی ہے۔خوف وخشیت ربانی،محبت کامل وعشق حقیقی،تحمل وبردباری،زہد وپرہیزگاری،عفت وپارسائی،تحمل وبردباری،حق گوئی وبے باکی،صداقت وراست بازی،ایثار وقربانی،امانت و دیانت ،تقویٰ وطہارت،خلوص وللہیت،اخوت ومروت ،کرم وسخا،صبر وشکر،حسن خلق وحسن معاشرت وغیرہا صفات جمیلہ وخصائل حمیدہ،جو ایک صوفی کامل کے لیے طرۂ امتیاز کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ سب کے سب آپ کی ذات با برکات میں مجتمع تھیں۔آپ حضور غوث پاک کی تعلیمات پر بصدق دل عمل کرتے تھے اور ان سے بے حدعقیدت و محبت رکھتے تھے۔اسی طرح آپ سادات کرام کا انتہائی ادب واحترام کرتے تھے۔ ایک صوفئ کامل کے لیے جن جن صفات کا ہونا ضروری ہے وہ تمام صفات آپ کے اندر موجود تھیں۔ ذیل میں ہم آپ کے چند صفات حمیدہ کو بطور نمونہ پیش کررہے ہیں۔
ریاضت ومجاہدہ: 
ریاضت ومجاہدہ ان اعمال واشغال میں سے ہیں، جن کے ذریعے صوفیاء کرام مقام قرب کو حاصل کرتا ہے  جس کے لیے وہ حضرات اپنے نفس کو مکمل طور پر کچل دیتے ہیں ۔اس سلسلے میں جب ہم اعلی حضرت کی ذات کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اندر ریاضت ومجاہدہ اور نفس کشی کامل طور پر موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ مجاہدہ کے لیے کھاناپینا چھوڑ دیا حتی کہ مسلسل باسٹھ وقت تک آپ نے کچھ بھی نہیں کھایا پیا،جب کھانے کے لیے اصرار کیا جاتا تو آپ نے فرماتے جب روح کو غذا ملتی رہے تو جسم کو غذا فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔پھر والدین کریمین کی رضا وخوشنودی اور خواب میں اصرار کا خیال کرتے ہوئے کھانا شروع فرمایا۔ اسی طرح دین کی خدمت اور اسلام کی نشر واشاعت میں دشواریوں کا سامنا کرنے کو بھی عظیم مجاہدہ قرار دیا جاتا ہے،اس نقطۂ نظر سے بھی اگر آپ کی حیات طیبہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی احیاء دین،نصرت حق،حمایت مذہب،اشاعت دین وسنت اور لوگوں کی اصلاح وتربیت میں بے حدصعوبتوں اور دشواریوں کا سامنا کیا۔ریاضت ومجاہدہ کے سلسلے میں آپ کے بے شمار اقوال وفرمودات بھی موجود ہیں،جیسا کہ الملفوظ میں ہے کہ آپ نے فرمایا :کہ اس میں کیا ریاضت تھوڑی ہے جو عزلت نشیں ہوگیا نہ اس کے قلب کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے نہ اس کی آنکھوں کو، نہ اس کے کانوں کو،اس سے کہیے جس نے اوکھلی میں سردیا ہے اور چاروں طرف سے موسل کی مار پڑرہی ہے۔(الملفوظ،سوم ص:۹۹۴ ،مطبع اڈوانس پرنٹنگ،دہلی)
تقویٰ وطہارت اور اتباع شریعت: 
ایمان کی تکمیل کے لیے شریعت طیبہ پر عمل پیرا ہونا ہر مسلمان مکلف کے لیے لازم ہے،اسی طرح صوفئ کامل بننے کے لیے اتباع شرع اور تقویٰ وطہارت نہایت ضروری ہے اس کے بغیر کوئی شخص درجہ ولایت اور مقام صوفیت کو پہنچ ہی نہیں سکتا ہے۔اس تناظر میں جب ہم اعلی حضرت کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ تقوی وطہارت اور اتباع شرع میں یکتائے روزگار نظر آتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آپ کے تقویٰ وطہارت کا یہ حال تھا کہ آپ قبلے کی طرف کبھی نہیں تھوکتے اور نہ ہی کبھی اس طرف پاؤں دراز کرتے ،بلکہ جب چھ سال کی عمر میں بغدادشریف کی سمت معلوم ہوئی تو آپ نے اس کے بعد اس طرف کبھی بھی پاؤں نہیں پھیلایا،چونکہ آپ کو حضور غوث پاک سے نہایت الفت ومحبت تھی۔آپ کے تقویٰ وطہارت ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ہمیشہ اپنی زندگی کے تمام معاملات میں نہایت ہی احتیاط برتتے ،اور کبھی بھی کوئی خلاف شرع کام نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی خلاف شرع بات برداشت کرتے۔
توضع وانکساری:
تواضع وانکساری اور محاسبۂنفس، سلوک وتصوف کی علامت و نشانی  اور صوفیاومشائخ کی محبوب ترین عادات میں سے ہے۔تواضع وخاکساری ایسی عظیم نعمت ہے کہ جس کے ذریعے انسان بارگاہ الٰہی کا مقرب بن جا تا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے حکم شرع اور اتباع سلف میں زندگی کے ہر ہر موڑ پر تواضع وخاکساری کو اختیار کرنا باعث فخر اور متاع نجات سمجھا،اس کی بے شمار شواہد آپ کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں  میں موجود ہیں جیسے حضور ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ کی کتاب "حیات اعلیٰ حضرت" اسی طرح ماہنامہ قاری کا "اعلیٰ حضرت نمبر "وغیرہ میں ہے کہ آپ پان بہت کھاتے تھے ایک دن شام کے وقت پان نہیں آئے مغرب سے تقریبا دو گھنٹے بعد گھر کے ملازم کا ایک بچہ پان لایا،آپ نے اسے ایک طمانچہ رسید کردیا۔بوقت سحر،سحری کھا کر مسجد کے باہر دروازے پر تشریف لائے،اس بچے کو بلوایا اور فرمایا: شام کو میں نے غلطی کی جو تمہیں طمانچہ لگادیا،تمہارا تو کوئی قصور نہیں تھا،قصور تو دیر سے بھیجنے والے کا تھا،لہذا تم میرے سر پر طمانچہ مارو اور ٹوپی اتار کر اصرار فرمانے لگے،یہ دیکھ کر بچہ بہت پریشان ہوا اور کانپنے لگا اور ہاتھ جوڑ کر عرض کرنے لگا حضور میں نے معاف کردیا،تو آپ نے فرمایا تم نابالغ ہو تمہیں معاف کرنے کا حق نہیں،تم طمانچہ مارو ،مگر بالآخر وہ مار نہ سکا،اس کے بعد آپ نےاپنا بکس منگوا کر مٹھی بھر پیسے دکھا کر فرمایا :میں تم کو یہ دوں گا تم مجھے طمانچہ مارو مگر وہ بیچارہ یہی کہتا رہا کہ حضور میں نے معاف کیا،حتیٰ کہ آپ نے خود سے اس کا ہاتھ پکڑ کر بہت سے طمانچے اپنے سرمبارک پہ اس کے ہاتھ لگوائے اور پھر اس کو پیسے دیکر رخصت فرمایا۔اس کے علاوہ اور بھی کئی واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہےکہ آپ خاکسری اور انکساری کے اعلی مقام پر فائز تھے۔
توکل وقناعت اور کرم وسخاوت:
توکل وقناعت اور سخاوت وکرم نوازی تصوف کی جان اور اس کی اصل ہے اور یہ صوفیاء کرام کے لیے طرۂامتیاز ہے۔اعلیٰ حضرت توکل وقناعت اور کرم وسخا میں بھی اعلیٰ مقام پر فائز تھے،اگر چہ آپ دنیاوی اعتبار سے صاحب ثروت اور جاگیردار تھے مگر ہاتھ میں جو رقم آتی اسے راہ خدا اور خدام وغیرہ یا دینی وفلاحی کاموں میں صرف فرمادیتے،حتی کہ آپ ایک جاگیر دار ہونے کے باوجود آپ پر کبھی زکوٰۃ فرض نہ ہوئی کیوں کہ آپ کے پاس اتنا مال ایک ساتھ کبھی جمع ہی نہیں ہوا کہ جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی۔ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کے پاس ایک حاجت مند اپنی حاجت لے کر آیا،آپ نے فرمایا اس وقت میرے پاس صرف تین آنے پیسے ہیں  وہ بھی بعض خطوط کے جوابات کے لیے رکھے تھے اگر آپ فرمائیں تو حاضر کردوں،اس بیچارے نے آبدیدہ ہوکر نظر جھکا لی،آپ نے وہ پورے تین آنے پیسے اس کے حوالے کردیے۔اس کے علاوہ اور بھی اس طرح کے کئی واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلی حضرت نے توکل وقناعت پر بھرپور عمل فرمایا اور سخاوت وکرم نوازی سے خلق خدا کی خوب حاجت روائی فرمائی۔اسی طرح زہد،صبر،شکر وغیرہ جو تصوف کے اہم اجزا میں سے ہیں تمام  میں آپ یکتائے روزگار تھے۔آپ نے تصوف سے بے شمار قلوب کو معمور فرمایا اور روحانی غذا بخشی ۔
تصوف پر آپ کی تصانیف:
آپ نے جس طرح مختلف علوم وفنون پر سینکڑوں کتابیں تصنیف فرمائی اسی طرح تصوف پربھی بیش قیمت کتب و رسائل تصنیف فرمائی ہے۔جو روحانی اقدارکو فروغ بخشنے کے لیے کافی مدد گار ہیں۔عیسیٰ رضوی صاحب نے "معارف تصوف" میں تصوف وسلوک پر آپ کی بے شمارتصانیف کا ذکر کیا ہے جن میں سے چند یہ ہیں:(۱) ماقال وکفی من ادعیۃ المصطفےٰ (۴۰۳۱ھ)،صبح وشام اور اوقات خاصہ کی کار آمد دعاؤوں کا مجموعہ۔(۲) ازہار الانوار من یم صلاۃ السرار (۵۰۳۱ھ)،نماز غوثیہ کا ثبوت اور بہت سے اسرار ورموز کے بیان کا مجموعہ۔ (۳) ازہارالانوار من صبا صلاۃ الاسرار(۵۰۳۱ھ)،نماز غوثیہ کا طریقہ اور دیگر نکات ولطائف کا مجوعہ۔(۴) زھر الصلوٰۃ من شجرۃ اکارم الھداۃ (۵۰۳۱ھ)،درود میں شجرہئ طیبہ کے اورادکا مجموعہ۔(۵) الزمزمۃ القمریۃ فی الذب عن الخمریۃ (۶۰۳۱ھ)، قصیدہئ غوثیہ پر بعض معترضین کے اعتراضات کا رد۔(۶)ذیل المدعی لاحسن الوعاء (۶۰۳۱ھ)،دعا کے آداب،اوقات،مکانات اور اسباب اجابت کا بیان۔(۷) شرح الحقوق لطرح العقوق (۷۰۳۱ھ)، ابوین،زوجین اور استاذ وغیرہ کے حقوق کی مکمل تفصیل۔(۸) کشف حقائق واسرار دقائق( ۸۰۳۱ھ)،تصوف آمیز اشعار کی تشریح اور بعض سوالات تصوف کا جواب۔(۹) مشعلۃ الارشاد الیٰ حقوق الاولاد( ۹۰۳۱ھ)،اولاد کے پیدا ہونے سے لیکر بالغ ہونے تک کے حقوق۔(۰۱) اعز الاکتناہ فی رد صدقۃ مانع االزکوٰۃ(۹۰۳۱ھ)،زکوٰۃ نہ دیے کر صدقہ کرنے والے کو عالمانہ اور صوفیانہ تنبیہ۔(۱۱)الیاقوتۃ الواسطۃ فی قلب عقد الرابطۃ( ۹۰۳۱ھ)،تصور برزخ کا جواز اور شیخ سے رابطہئ قلبی کا فائدہ۔(۲۱)اعجب الامداد فی مکفرات حقوق العباد( ۰۱۳۱ھ )،کن اعمال کے سبب حقوق العباد سے نجات مل سکتی ہے۔ (۳۱)بوارق تلوح من حقیقۃ الروح( ۱۱۳۱ھ) ،روح کیا شئی ہے اس کی توضیح و تفصیل۔(۴۱) التلطف بجواب مسائل التصوف( ۲۱۳۱ھ )،مسائل تصوف کا عارفانہ جواب۔(۵۱)نقاء السلافۃ فی البیعۃ والخلافۃ( ۹۱۳۱ھ) ، بیعت وخلافت کے اھکام ومسائل کی تفصیل۔(۶۱)الفوز بالآمال فی الاوفاق والدعاء( ۶۲۳۱ھ )،اعمال ونقوش وتعویذات خاندانیء وایجادی کا مجموعہ۔(۷۱) مقال عرفاء باعزاز شرع وعلماء( ۷۲۳۱ھ) ،طریقت،شریعت سے جدا نہیں ہے اس پر احکام شرع اور عارفین کے اقوال  کا مجموعہ۔(۸۱)الوظیفۃ الکریمۃ،دعاء ماثورہ اور شب وروز کے وظائف کا مجموعہ۔(۹۱)حاشیۃ احیاء علوم الدین۔(۰۲) حاشیۃ بھجۃ الاسرار۔(۱۲) حاشیۃ حدیقۃ ندیۃ۔(۲۲)حاشیۃ مدخل۔(۳۲) حاشیۃ کتاب البریز۔(۴۲) حاشیۃ کتاب الزواجر۔اسی طرح علم جفر وتکسیر کا تعلق بھی علم تصوف سے ہے اور یہ صوفیاء کرام ومشائخین عظام کے خاص علوم میں سے ہیں،ان فنون میں بھی آپ کی کئی تصنیفات ملتی ہیں مثلا:(۵۲)اطالب الاکسیر فی علم التکسیر( ۶۹۲۱ھ)۔(۶۲) الاجوبہ الرضویۃ للمسائل الجفریۃ( ۳۱۳۱ھ)۔(۷۲) الثواقب الرضویۃ علی الکوکب الدریۃ (۱۲۳۱ھ)۔(۸۲)رسالۃ در علم تکسیر۔(۹۲) حاشیۃ الدر المکنون۔(۰۳) الوسائل الرضویۃ للمسائل الجفریۃ۔(۱۳)مجتلی العروس ومراد النفوس۔(۲۳) الجفر الجامع۔(۳۳) اسھل الکتب فی جمیع المنازل۔(۴۳) رسالۃ فی علم الجفر۔(۵۳) سفر السفر عن الجفر بالجفر۔اس کے علاوہ آپ کے دیوان میں بیشتر اشعارتصوف سے لبریز ہیں ،جو ایک سالک اور سچے عاشق رسول کے لیے نہایت مفید ہیں۔فن تصوف پر اعلی حضرت کی اتنی ڈھیر ساری کتابیں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ ایک مجدد،محقق،محدث،مفسر،فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ صوفئ کامل بھی تھے۔



محمد احسان الحق جامعیؔ کشن گنجوی            

ریسرچ سکالر: اے.بی.آئی.آر.ٹی.آئی.علی گڑھ




1 comment:

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان  تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے ساتھ زیادتی آزاد ملک میں نہایت شرمناک بات ہے از قلم: محمد احسان الحق جامعی...