جشن ولادت رسول ﷺ اکابر اسلام کی نظر میں
ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منانا جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن
عمل ہے ۔اور اس بارے میں امت کے جید فقہاء ،علماءاورمحدثین کی تصریحات موجود ہیں
حتی کہ کچھ نےتو جشن عید میلاد
النبیﷺ منانے کو باعث اجر وثواب قرار دیا ہے،لہذا ہم ذیل ان کے کچھ اقوال و
تصریحات کو باحوالہ پیش کررہے ہیں ۔
1۔ حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ (متوفی 150ھ) نےاپنے ’’قصیدہ
نعمانیہ‘‘ میں حضور نبی اکرمﷺ کے میلاد شریف کا اس طرح بیان فرمایا ہے:"حضور ﷺ
وہ ہیں کہ اگر آپﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا اور آپ پیدا نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ
پیدا کیا جاتا"(قصیدۂ نعمانیہ:196)
2۔ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ (متوفی 204ھ)فرماتے ہیں کہ "میلاد
شریف منانے والا صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا" (النعمتہ الکبریٰ
بحوالہ :برکات میلاد شریف: 6)
3۔ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ (متوفی 241ھ)فرماتے ہیں :"شب
جمعہ، شب قدر سے افضل ہے کیونکہ جمعہ کی رات سرکار علیہ السلام کا وہ نور پاک اپنی
والدہ سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے مبارک رحم میں منتقل ہوا جو دنیا و آخرت میں ایسی
برکات و خیرات کا سبب ہے جوکسی گنتی و شمار میں نہیں آسکتا"(اشعتہ اللمعات)
4۔ امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (متوفی 606ھ) فرماتے ہیں: "جس
شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا، اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا
ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا تو ایسا شخص برکت نبوی سے محتاج
نہ ہوگا اور نہ ہی اس کا ہاتھ خالی رہے گا"(النعمتہ الکبری:بحوالہ برکات
میلاد شریف :5)
5۔حافظ ابن کثیر (متوفی 774ھ) فرماتے ہیں "رسول اﷲﷺ کی ولادت
کی شب اہل ایمان کے لئے بڑی شرافت، عظمت، برکت اور سعادت کی شب ہے۔ یہ رات پاکی
ونظافت رکھنے والی، انوار کو ظاہر کرنے والی، جلیل القدر رات ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس
رات میں وہ محفوظ پوشیدہ جوہر ظاہر فرمایا جس کے انوار کبھی ختم ہونے والے نہیں"(مولد
رسول ﷺ:262)
6۔ حافظ حدیث علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (متوفی 852ھ) ایک
سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:"میرے لئے محفل میلاد کی تخریج ایک اصل ثابت سے
ظاہر ہوئی، اور یہ وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے:کہ"حضور
نبی کریمﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ
رکھتے دیکھا۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ صالح دن ہے، کہ جس دن
اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی ،تو موسی
علیہ السلام نے روزہ رکھا اور اپنے متبعین کو روزہ رکھنے کا حکم دیا"(بخاری،
کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء :2004)علامہ ابن حجرعسقلانی فرماتے ہیں:" اس
روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے کسی معین دن میں احسان فرمانے پر عملی طور
پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ اور حضور ﷺ کی تشریف آوری سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے"
(نثرالدر علی مولد لابن حجر: 47)
7۔ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ (متوفی 911ھ) فرماتے ہیں کہ "میلاد
النبی ﷺ کے سلسلہ میں منعقد کی جانے والی مروجہ محافل میلاد بدعت حسنہ ہے جس کا
اہتمام کرنے والے کو ثواب ملے گا۔ اس لئے کہ اس میں حضور نبی کریم ﷺ کی تعظیم، شان
اور آپ کی ولادت باسعادت پر فرحت و مسرت کا اظہار پایا جاتا ہے "(حسن المقصد
فی عمل المولد: 173)
8۔ ملاعلی قاری علیہ الرحمہ(متوفی 1014ھ) اپنی کتاب "المورد
الروی" کی تقدیم میں فرماتے ہیں:"جب میں ظاہری دعوت وضیافت سے عاجز ہوا
تو یہ اوراق میں نے لکھ دیا تاکہ یہ معنوی ضیافت ہوجائے اور زمانہ کے صفحات پر
ہمیشہ رہے، سال کے کسی مہینے سے مختص نہ ہو اور میں نے اس کا نام "الموردالروی
فی مولد النبیﷺ" رکھا ہے" (المورد الروی : 34)
9۔ حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں "ہمیشہ
مسلمان ولادت پاک کے مہینے میں محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں اور دعوتیں کرتے ہیں
اور اس ماہ کی راتوں میں ہر قسم کا صدقہ کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں، نیکی زیادہ
کرتے ہیں اور میلاد شریف پڑھنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں" (انوار محمدیہ ص 29)
10۔ مفتی مکہ مکرمہ حضرت سید احمد زینی شافعی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے
ہیں "میلاد شریف کرنا اور لوگوں کا اس میں جمع ہونا بہت اچھا ہے" (سیرۃ
نبوی ص 45)
ایک اور جگہ حضرت مفتی مکہ مکرمہ فرماتے ہیں: "محافل میلاد
اور افکار اور اذکار جو ہمارے ہاں کئے جاتے ہیں ان میں سے اکثر بھلائی پر مشتمل
ہیں جیسے صدقہ ذکر، صلوٰۃ و سلام، رسول خداﷺ پر اور آپ کی مدح پر" (فتاویٰ
حدیثیہ : 129)
11۔ محدث کبیر علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: "یہ
عمل حسن (محفل میلاد) ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ، مصر، یمن و شام
تمام بلاد عرب اور مشرق و مغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے اور وہ میلاد
النبیﷺ کی محفلیں قائم کرتے اور لوگ جمع ہوتے ہیں"(المیلاد النبوی : 35-34)
12۔ شیخ محمد بن علوی المالکی الحسنی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: "حضورﷺ
اپنی میلاد شریف کے دن کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر اسے بہت بڑا اور عظیم واقعہ
قرار دیتے ہیں اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا فرماتے کہ یہ آپ کے لئے بہت بڑا
انعام و اکرام و نعمت ہے۔ نیز اس لئے کہ تمام کائنات پر آپ کے وجود مسعود کو فضیلت
حاصل ہے" (حوال الامتفال بالمولد النبوی شریف : 9,8)
13۔ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد المعروف امام قسطلانی فرماتے
ہیں :"حضورﷺ کے پیدائش کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفلیں منعقد کرتے
آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانے پکاتے رہے اور دعوت طعام کرتے رہے ہیں۔ اور ان
راتوں میں انواع و اقسام کی خیرات کرتے رہے اور سرور ظاہر کرتے چلے آئے ہیں"
(مواہب لدنیہ ،ج 1: 27)
14۔ حضرت امام ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ کے پوتے فرماتے ہیں "مجھے
لوگوں نے بتایا کہ جو ملک مظفر (بادشاہ وقت) کے دسترخوان پر میلاد شریف کے موقع پر
حاضر ہوئے کہ اس کے دسترخوان پر پانچ ہزار بکریوں کے بھنے ہوئے سر، دس ہزار مرغ،
ایک لاکھ پیالی مکھن کی اور تیس طباق حلوے کئے تھے اور میلاد میں اس کے ہاں مشاہیر
علماء اور صوفی حضرات حاضر تھے۔ ان سب کو خلعتیں عطا کرتا تھا۔ اور خوشبودار چیزیں
سنگھاتا تھا اور میلاد پاک پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا (سیرۃ النبوی: 45)
15۔ حضرت شاہ احمد سعید مجددی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں "جس
طرح آپ خود اپنی ذات پر درود وسلام بھیجا کرتے تھے، ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کے میلاد
کی خوشی میں جلسہ کریں، کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں
(ان کے) ذریعے شکر بجالائیں" (اثبات المولد والقیام : 24)
16۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اپنے والد شاہ
عبدالرحیم رحمتہ اﷲ علیہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ’’میرے والد نے مجھے خبر دی کہ
میں عید میلاد النبی ﷺ کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا۔ ایک سال تنگدست تھا کہ میرے
پاس کچھ نہ تھا مگر صرف بھنے ہوئے چنے تھے۔ میں نے وہی چنے تقسیم کردیئے۔ رات کو
سرکار دوعالم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا اور کیا دیکھتا ہوں کہ حضورﷺ کے سامنے وہی
چنے رکھے ہیں اور آپ خوش ہیں"(درثمین : 8)
17۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اور ان کے صاحبزادے
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان کے
ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے
(الدرالمنظم : 89)
18۔ مفتی اعظم شاہ محمد مظہر اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ 12 ربیع الاول
کو ہر سال بڑے تزک واحتشام سے محفل میلاد منعقد کراتے، جو نماز عشاء سے نماز فجر
تک جاری رہتی پھر کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کیا جاتا اور مٹھائی تقسیم ہوتی،
کھانا کھلایا جاتا (تذکرہ مظہر مسعود : 176)
19۔علامہ ابن جوزی" مولد العروس "کے ص 9 پر فرماتے ہیں:وجعل
لمن فرح بمولدہ حجابا من النار و سترا، ومن انفق فی مولدہ درہما کان المصطفی صلی
اﷲ علیہ وسلم لہ شافعا ومشفعا
(اور جو پیارے مصطفی ﷺ کے میلاد شریف کی خوشی کرے، وہ خوشی، دوزخ
کی آگ کے لئے پردہ بن جائے اور جو میلاد رسول اﷲﷺ میں ایک درہم بھی خرچ کرے، حضورﷺ
اس کی شفاعت فرمائیں گے اور ان کی شفاعت مقبول ہوگی)اور ص 28پر محدث ابن جوزی یہ
اشعار لکھتے ہیں:یا مولد المختار کم لک من ثنا۔۔۔ ومدائح تعلو
وذکر یحمد یالیت طول الدھر عندی ذکرہ۔۔۔ یالیت طول الدھر عندی مولد(اے میلاد رسول ﷺ تیرے لئے بہت ہی تعریف ہے اور تعریف بھی ایسی جو
بہت اعلیٰ اور ذکر ایسا جو بہت ہی اچھا ہے۔ اے کاش طویل عرصے تک میرے پاس نبی پاک
ﷺ کا تذکرہ ہوتا، اے کاش طویل عرصے تک)
ان کے علاوہ اور بھی بے شمار
علماء اسلام کی تصریحات واقوال ہیں جن میں انہوں نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ
جشن ولادت رسول ﷺمنانا نہایت کار خیر اور باعث اجر وثواب ہے ۔
Published By ahlehaque.blogspot.in
No comments:
Post a Comment