غیبت کی تعریف بہارِ
شریعت میں
صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ
علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے غیبت کی تعریف اس
طرح بیان کی ہے:کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا۔
(بہارِ شریعت حصّہ ۱۶ ص ۱۷۵)
غیبت کی تعریف از ابنِ
جَوزی
حضرتِ علّامہ اَبُو
الْفَرَج عَبْدُ الرَّحمٰن بِن جَوزِی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی نے
اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں غیبت کی جو تعریف بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے:تو اپنے
بھائی کو ایسی چیز کے ذَرِیعے یاد کرے کہ اگروہ سن لے یا یہ بات اسے پہنچے تو اسے
ناگوار گزرے اگر چِہ تو اس میں سچّا ہو خواہ اس کی ذات میں کوئی نَقْص (خامی)بیان
کرے یا اس کی عَقل میں یا اس کے کپڑو ں میں یا اس کے فعل یا قول میں کوئی کمی بیان
کرے یا اس کے دین یا اس کے گھر میں کوئی نَقص (عیب)بیان کرے یا اس کی سواری یا اس
کی اولاد، اس کے غلام یااس کی کنیز میں کوئی عیب بیان کرے یااس سےمتَعَلِّق (یعنی تعلُّق رکھنے والی)کسی
بھی شے کا (برائی کے ساتھ)تذکرہ کرے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا کہ اس کی آستین
یادامن لمباہے سب غیبت میں داخل ہیں ۔ (بَحْرُالدُّمُوع ص۱۸۷)
غیبت کی تباہ کاریاں ایک
نظر میں
بَہُت سارے پرہیز گار نظر آنے والے لوگ
بھی بِلا تکلُّف غیبت سنتے،سناتے،مسکراتے اور تائید میں سر نظر آتے ہیں، چُونکہ
غیبت بَہُت زیادہ عام ہے اِ س لئے عُمُوماً کسی کی اِس طرف توجُّہ ہی نہیں ہوتی کہ
ہالانکہ غیبت کرنے والا نیک پرہیز گار نہیں بلکہ فاسِق وگنہگار اور عذابِ نار کا
حقدار ہوتا ہے۔قراٰن و حدیث اور اقوالِ بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ
اللہُ المُبِین سے منتخب کردہ غیبت کی 20 تباہ کاریوں پر ایک سرسری
نظر ڈالئے، شاید خائفین کے بدن میں جُھر جھری کی لہر دوڑ جائے!جگر تھام کر
مُلاحَظہ فرمایئے:
*غیبت ایمان کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے
*غیبت بُرے خاتمے کا سبب ہے*بکثرت غیبت کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی *غیبت سے
نَماز روزے کی نورانیَّت چلی جاتی ہے *غیبت سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں*غیبت نیکیاں
جلا دیتی ہے*غیبت کرنے والا توبہ کر بھی لے تب بھی سب سے آخِرمیں جنَّت میں داخِل ہوگا،
اَلغَرض غیبت گناہِ کبیرہ، قطعی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام ہے*غیبت زنا
سے سخت تر ہے*مسلمان کی غیبت کرنے والا سُود سے بھی بڑے گناہ میں گرفتار ہے*غیبت
کو اگر سمندر میں ڈال دیا جائے تو سارا سمندر بدبُو دار ہو جائے*غیبت کرنے والے کو
جہنَّم میں مُردار کھانا پڑے گا* غیبت مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مُترادِف
ہے*غیبت کرنے والا عذابِ قبر میں گرفتار ہو گا! *غیبت کرنے والاتانبے کے ناخنوں سے
اپنے چہرے اور سینے کو بار بار چھیل رہا تھا* غیبت کرنے والے کو اُس کے پہلوؤں سے
گوشت کاٹ کاٹ کر کِھلایا جا رہا تھا*غیبت کرنے والا قیامت میں کتّے کی شکل میں
اٹھے گا *غیبت کرنے والا جہنَّم کا بندر ہو گا*غیبت کرنے والے کو دوزخ میں خود
اپنا ہی گوشت کھانا پڑے گا*غیبت کرنے والا جہنَّم کے کھولتے ہوئے پانی اور آگ کے
درمیان موت مانگتا دوڑرہا ہو گا اور اس سے جہنَّمی بھی بیزار ہوں گے* غیبت کرنے
والا سب سے پہلے جہنَّم میں جائے گا۔
غیبت حرام ہونے کی حکمت
حضرتِ سیِّدُنا اِمام احمدبن
حَجَرمَکِّی شَافِعِی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی نقل کرتے ہیں:کسی کی برائی بیان کرنے
میں خواہ کوئی سچّا ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کی غیبت کو حرام قرار دینے میں حکمت
مؤمن کی عزّت کی حفاظت ميں مبالَغہ کرنا ہے اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ
انسان کی عزّت و حرمت اور اس کے حُقُوق کی بَہُت زیادہ تاکيد ہے، نیز اللہ
عَزَّوَجَلَّ نے اس کی عزّت کو گوشت اور خون کے ساتھ تَشبیہ دے کر مزید پختہ و
مُؤَکَّد کر دیا اور اس کے ساتھ ہی مبالَغہ کرتے ہوئے اسے مُردہ بھائی کا گوشت
کھانے کے مُتَرادِف قرار دیا چُنانچِہ پارہ 26سورۃُ الحُجُرات آیت نمبر 12میں
ارشاد فرمايا:
اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ
اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ
اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ
(ترجَمہ کنزالایمان:کیا تم میں کوئی
پسند کریگا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا)
عزّت کو گوشت سے تَشبيہ دینے کی وجہ يہ
ہے کہ انسان کی بے عزّتی کرنے سے وہ ایسی ہی تکليف محسوس کرتا ہے جيسا کہ اس کا
گوشت کاٹ کر کھانے سے اس کا بدن درد محسوس کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ۔ کيونکہ
عقلمند کے نزديک مسلمان کی عزّت کی قيمت خون اور گوشت سے بڑھ کر ہے۔ سمجھدار آدمی
جس طرح لوگوں کا گوشت کھانا اچّھا نہيں سمجھتا اسی طرح ان کی عزّت پامال کرنا
بدرجہ اَولیٰ اچھا تصوُّر نہيں کرتا کيونکہ يہ ایک تکليف دِہ اَمر(یعنی
مُعامَلہ)ہے اور پھر اپنے بھائی کا گوشت کھانے کی تاکيد لگانے کی وجہ يہ ہے کہ کسی
کے لئے اپنے بھائی کا گوشت کھانا تو بَہُت دور کی بات ہے (معمولی سا)چبانا بھی
ممکن نہيں ہوتا لیکن دُشمن کا مُعامَلہ اس کے برعکس ہے۔ (اَلزَّواجِرُ
عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر ج۲ ص۱۰)
سینوں سے لٹکے ہوئے لوگ
سرورِ کائنات،شاہِ موجودات، محبوبِ
ربُّ الْارضِ وَالسَّمٰوت عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:معراج کی رات ميں ايسی عورَتوں اور مَردوں کے پاس
سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک رہے تھے، تو ميں نے پوچھا:اے جبرئيل! يہ کون
لوگ ہيں؟ عرض کی:يہ منہ پر عيب لگانے والے اور پيٹھ پيچھے برائی کر نے والے ہیں
اور ان کے مُتَعَلِّق اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱﴾ (پ۳۰
اَلھُمَزہ:۱)
ترجَمہ کنزالایمان:خرابی ہے اس کے لئے
جو لوگوں کے منھ پر عیب کرے، پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(شُعَبُ
الْاِیمان ج۵ص۳۰۹حدیث۶۷۵۰)
تانبے کے ناخُن
سرکارِ دو عالم،نُورِ مجَسَّم ، شاہِ
بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت
نشان ہے:میں شبِ معراج ایسی قوم کے پاس سے گزرا جو اپنے چہروں اورسِینوں کو تانبے
کے ناخُنوں سے نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا :اے جِبرئیل !یہ کون لوگ ہیں؟ کہا:یہ
لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے)تھے اور اُن کی عزّت خراب کرتے تھے۔ (سُنَنِ ابوداو،د ج ۴ ص۳۵۳حدیث ۴۸۷۸)
پہلوؤں سے گوشت کاٹ کر
کھلانے کا عذاب
غیبت کے ایک اوردل ہلا دینے والے عذاب
کی روایت سنئے اورتھر تھر کانپئے۔حضرتِ سیِّدُنا ابوسعید خُدری رضی اللہ تعالیٰ
عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرورِ کائنات،شاہِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس رات مجھے آسمانوں کی سَیر کرائی گئی تو میرا گزر
ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پہلوؤں سے گوشت کاٹ کر خُود ان ہی کو کھلایا جا رہا تھا
۔ ا نہیں کہا جاتا ،کھاؤ !تم اپنے بھائیوں کا گوشت کھایا کرتے تھے ۔ میں نے پوچھا
:اے جبرئیل یہ کون ہیں؟ عرض کی:آقا!یہ لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔(دَلائِلُ
النُّبُوَّۃ لِلْبَیْھَقی ج۲ص۳۹۳،تَنبِیہُ الغافِلین ص۸۶)
جھنَّمی بندر وخِنزیر
غیبت کی تباہ کاری تو دیکھئے کہ مشہور ولیُّ
اللہ حضرتِ سیِّدُنا حاتِمِ اَصَمّ علیہ رَحمَۃُ اللہِ الاکرم فرماتے ہیں ہمیں یہ
بات پہنچی ہے کہ:غیبت کرنے والاجہنَّم میں بندر کی شکل میں بدل جائے گا،جھوٹا دوزخ
میں کُتّے کی شکل میں بدل جائے گا اور حاسد جہنَّم میں سُوَر کی شکل میں بدل جائے
گا۔(تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص ۱۹۴)
غیبت ایمان کیلئے نقصان
دہ ہے
محبوبِ ربُّ العباد عَزَّوَجَلَّ وَ
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:غيبت اور چغلی ايمان کو اس طرح
کاٹ ديتی ہيں جس طرح چرواہا درخت کو کاٹ ديتا ہے۔ (اَلتَّرغِیب
وَالتَّرہِیب ج۳ ص ۳۳۲ حدیث ۲۸)
مسلمان كی بے عزّتی كبیرہ
گناہ ہے
رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ عالیشان
ہے:بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں ميں سے ہے۔
(سُنَنِ ابوداو،د ج۴ ص۳۵۳حدیث۴۸۷۷)
خدا عزّوجل ومصطفٰی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم كو ایذا دینے والا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حقیقت یہ ہے
کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزّت کا محافظ ہے مگر افسوس!ایسا نازک
دور آ گیا ہے کہ اب اکثر مسلمان ہی دوسرے مسلمان بھائی کی عزّت کے پیچھے پڑا ہوا
ہے جی بھر کر غیبتیں کررہا ہے اور چغلیاں کھا رہا ہے ، بِلا تکلُّف تہمتیں لگا رہا
ہے ، بِلا وجہ دل دُکھا رہا ہے، دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کا
مطبوعہ رسالہ ، ''ظلم کا انجام'' صَفْحَہ19تا20پر ہے:حقوقُ العباد کامُعامَلہ بڑا
نازُک ہے مگر آہ! آج کل بے باکی کا دور دورہ ہے، عوام توکُجا خواص کہلانے والے بھی
عُمُوماً اِس کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔غصّے کا مرض عام ہے اس کی وجہ سے
اکثر''خواص''بھی لوگوں کی دل آزاری کر بیٹھتے ہیں او ر اس کی طرف ان کی بالکل
توجُّہ نہیں ہوتی کہ کسی مسلمان کی بِلاوجہ شَرعی دل آزاری گناہ وحرام اور جہنَّم
میں لے جانے والا کام ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت ر حمۃاللہ تعالیٰ علیہ فتاوٰی رضویہ
شریف جلد 24 صَفْحَہ 342 میں طَبَرانِی شریف کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:سلطانِ دو
جہان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:
مَنْ اٰذٰی مُسْلِمًا فَقَدْ
اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللہ.
(یعنی)جس نے (بِلاوجہِ شَرعی)کسی مسلمان کو
ایذاء دی اُس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ
کو ایذاء دی۔ (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط ج۲ ص۳۸۷ حدیث ۳۶۰۷)
اﷲو رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذاء دینے والوں کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ
پارہ22 سورۃُ الْاَحزاب آيت 57 میں ارشاد فرماتاہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ
اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ
لَھُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿۵۷﴾
ترجَمہ کنزالایمان: بے شک جو ایذاء دیتے
ہیں اللہ( عَزَّوَجَلَّ)اور اس کے رسول کوان پر اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کی لعنت ہے دنیا
و آخرت میں اور اللہ (عَزَّوَجَلَّ)نے ان کیلئے ذلّت کا عذاب تیارکررکھا ہے۔(پ۲۲الاحزاب۵۷)
مومن كی حُرمت كعبے سے
بڑھ كر ہے
سُنَنِ اِبنِ ماجہ میں ہے :خاتَمُ
الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کعبہ
معظمہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا :مومن کی حُرمت تجھ سے زِیادہ ہے۔(سُنَنِ
اِبن ماجہ ج۴ ص۳۱۹ حدیث ۳۹۳۲)
كامل مسلمان كی تعریف
سرکارِمدینہ منوّرہ،سردارِمکّہ مکرّمہ
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ
الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ ۔
یعنی مسلمان وہ
ہے کہ اس کے ہاتھ اور زَبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔
دوقبروں میں ہونے والے
عذاب كے اسباب
حضرتِ سیدنااَبی بَکْرَہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حُضور نبیِّ کریم، رء وفٌ رَّحیم علیہ
اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسلیم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ایک آدَمی آپ صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بائیں طرف تھا۔ دَریں اَثنا ہم نے اپنے سامنے دو قبریں
پائیں تو محبوبِ خدائے تَوّاب ،نُبُوَّت کے آفتاب ،جنابِ رسالت مآب عَزَّوَجَلَّ و
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور
کسی بڑے اَمر کی وجہ سے نہیں ہو رہا، تم میں سے کون ہے جو مجھے ایک ٹہنی لا دے۔ ہم
نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو میں سبقت لے گیا اور ایک ٹہنی(یعنی
شاخ)لے کر حاضرِ خدمت ہو گیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے
دو ٹکڑے کردیئے اوردونوں قبروں پر ایک ایک رکھ دیا پھر ارشاد فرمایا:یہ جب تک تر
رہیں گے ان پر عذاب میں کمی رہے گی اور ان دونوں کو غیبت اور پیشاب کی وجہ سے عذاب
ہو رہا ہے۔(مُسند اِمام احمد ج۷ص۳۰۴ حدیث۲۰۳۹۵)
غیبت کرنے والے کی دعا
قَبول نہیں ہوتی
حضرتِ سیِّدُنا
فقیہ ابو للَّیث سمر قندی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں:تین آدَمیوں کی
دُعا قَبول نہیں ہوتی(1)جو مالِ حرام کھاتا ہو (2)جو بکثرت غیبت کرتا ہو(3)جو کہ
مسلمانوں سے حسد رکھتا ہو۔
(تَنبِیہُ الْغافِلین ص۹۵)
غیبت گویا نیکیاں پھینکنے
کی مشین ہے
حضرتِ سیِّدُنافضیل بن عیاض رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: غیبت کرنے والے کی مثال اُس شخص جیسی ہے جومِنجَنیق(یعنی
پتّھر پھیکنے کی ہاتھ سے چلائی جانے والی پُرانے دور کی مشین)کے ذَرِیعے اپنی
نیکیوں کو مشرِق و مغرِب ہر طرف پھینکتا ہے۔ (تَنبِیہُ
الْمُغتَرِّیْن ص۱۹۳)
غیبت کی بدبُو
غیبت کرنے سے ایک مخصوص بدبُو نکلتی ہے
۔ پہلے جب کوئی غیبت کرتا تھا تو بدبو کے سبب سب کومعلوم ہو جاتاتھا کہ غیبت ہو
رہی ہے!مگر اب غیبت کی اِس قَدَر کثرت ہو گئی ہے کہ ہر طرف اس کی بدبُو کے بھبکے
اُٹھ رہے ہیں مگر ہمیں بدبو نہیں آتی کیونکہ ہماری ناک اس کی بدبُو سے اَٹ گئی ہے
۔ اس کو یوں سمجھئے کہ جب گٹر صاف کی جارہی ہوتی ہے تو عام شخص اُس کی بدبُو کے
باعث وہاں کھڑا نہیں رَہ سکتا مگر بھنگی کو کچھ بھی پتا نہیں چلتا اس لئے کہ اس کی
ناک اس گندگی کی بدبو سے اَٹ چکی ہوتی ہے۔ چُنانچِہ فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ جلد
اوّل صَفْحَہ 720پر ہے:جھوٹ اور غیبت مَعنوی نَجاست(یعنی باطِنی گندگیاں )ہیں وَ
لہٰذا جھوٹے کے منہ سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ حفاظت کے فرِشتے اُس وقت اُس کے پاس
سے دُور ہٹ جاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں وارِد ہوا ہے اور اسی طرح ایک بدبو کی نسبت
رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے خبر دی کہ یہ اُن کے منہ کی
سَڑاند(یعنی بدبُو )ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں اور ہمیں جو جھوٹ یا غیبت کی
بدبُو محسوس نہیں ہوتی اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اُس سے مالُوف (یعنی اس کے عادی )ہو
گئے ہماری ناکیں اُس سے بھری ہوئی ہیں جیسے چمڑا پکانے والوں کے مَحَلّے میں جو
رہتاہے اُسے اُس کی بد بُو سے ایذا نہیں ہوتی دوسرا آئے تو اُس سے ناک نہ رکھی
جائے ۔مسلمان اِس نفیس فائدے (یعنی عمدہ نتیجے ) کو یاد رکھیں اور اپنے رب
(عَزَّوَجَلَّ)سے ڈریں، جھوٹ اور غیبت ترک کریں۔ کیا معاذَاللہ (عَزَّوَجَلَّ)منہ
سے پاخانہ نکلنا کسی کو پسند ہوگا؟ باطِن کی ناک کُھلے تو معلوم ہو کہ جھوٹ اور
غیبت میں پاخانے سے بد تر سڑاند (یعنی بدبو)ہے۔ رسولُ اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلَّم نے فرمایا:''جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی بدبو سے فرِشتہ ایک میل دور
ہوجاتا ہے۔''
(سُنَنِ تِرمِذی ج۳ص۳۹۲ حدیث ۱۹۷۹)
حضرتِ سیِّدُناجابر بن عبداللہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہما سے راوی ہم خدمتِ اقدس حُضور سیِّدِ عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلَّم میں حاضر تھے کہ ایک بدبُو اُٹھی، رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلَّم نے فرمایا:جانتے ہو کہ یہ بدبو کیا ہے، یہ ان کی بدبو ہے جو مسلمانوں کی
غیبت کرتے ہیں۔
(ذَمُّ الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۱۰۴ رقم۷۰)
غیبت گناہِ کبیرہ ہے
حضرت سیِّدُنا امام احمدبن حَجَر مَکِّی
شَافِعِی علیہ ر حمۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں:صحیح احادیثِ مبارَکہ میں ہے کہ
(۱)غیبت سُود سے بڑھ کر ہے ۔
(۲)اگر اسے (یعنی غیبت کو)سمندر کے پانی میں ڈال دیاجائے تو اسے بھی
بدبودار کر دے ۔
(۳)(غیبت
کرنے والے)دوزخ میں مُردار کھا رہے تھے ۔
(۴)ان (غیبت کرنے والوں)کی فَضا بدبودار تھی ۔
(۵)انہیں(یعنی غیبت کرنے والوں کو)قبروں میں عذاب دیا جا رہاتھا۔''
ان میں سے بعض احادیثِ مبارَکہ ہی اس کے
کبیرہ ہونے کے لئے کافی ہیں،پس جب یہ ساری جمع ہو جائیں تو پھر غیبت کیونکر کبیرہ
گناہ نہ کہلائے گی؟ (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر ج۲ ص ۲۸)
عالم کے بارے میں احتیاط
کی حکایت
حضرتِ شیخ افضلُ الدّین علیہ رَحْمَۃُ
اللہِ المُبین سے جب کسی عالمِ دین کے مقام کے بارے میں پوچھا جاتا تو (غیبت میں
جاپڑنے کے خوف سے فرماتے:میرے علاوہ کسی اور سے پوچھو میں تو لوگوں کو کمال اور
بہتری ہی کی نگاہ سے دیکھتا(اور ہر ایک کے بارے میں حُسنِ ظن سے کام لیتا )ہوں
،میرے پاس کشف نہیں جس کے ذَرِیعے ان کے اُن مقامات کی معلومات کر سکوں جو ربِّ
کائنات عَزَّوَجَلَّ کے یہاں ہیں ۔ اور حدیث شریف میں ہے : اَلظَّنُّ
اَکْذَبُ الْحدِیث۱؎ (ترجمہ
:بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔ (تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص۱۹۳)
عالم کی غیبت کرنے والا
رحمت سے مایوس
افسوس!!آج کل مَعاذَاللہ عُلَماء کی
بکثرت غیبت کی جاتی ہے۔لہٰذا شیطان کسی عالِم دین کی غیبت پر اُبھار ے تو حضرتِ
سیِّدُناابو حَفص کبیرعلیہ رحمۃ اﷲالقدیر کے اِس ارشاد کو یاد کر کے خود کو
ڈرایئے:جس نے کسی فَقیہ(عالِم)کی غیبت کی تو قِیامت کے روز اُس کے چِہرے پر لکھا
ہو گا:''یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت سے مایوس ہے۔'' (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۷۱)
غیبت کے مختلف طریقے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غیبت صِرف
زبان ہی سے نہیں اور طریقوں سے بھی کی جا سکتی ہے مثَلاً (1) اشارے سے(2)لکھ
کر(3)مُسکرا کر(مَثَلاًآپ کے سامنے کسی کی خوبی بیان ہوئی اور آ پ نے طنزیہ انداز
میں مسکرا دیا جس سے ظاہِر ہوتا ہو کہ''تم بھلے تعریف کئے جاؤ، میں اِس کو خوب
جانتا ہوں!'')(4) دل کے اند ر غیبت کرنا یعنی بد گُمانی کو دل میں جَما لینا ۔
مَثَلاً بِغیر دیکھے بِلا دلیل یا بِغیر کسی واضِح قرینے کے ذِہن بنا لینا کہ''
فُلاں میں وفا نہیں ہے۔''یا فُلاں نے ہی میری چیز چُرائی ہے ''یا ''فُلاں نے یوں
ہی گپ لگا دیا ہے''وغیرہ(5)اَلْغَرَض ہاتھ ،پاؤں،سر، ناک، ہونٹ ، زَبان ، آنکھ ،
اَبرو ، پیشانی پر بل ڈال کریا لکھ کر، فون پر SMS کر کے ، انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے ذَرِیعے ، برقی
ڈاک (یعنیE.MAIL)سے
یا کسی بھی انداز سے کسی کے اندر موجود برائی یا خامی دوسرے کو بتائی جائے وہ غیبت
میں داخِل ہے۔
غیبت نیکیوں کو جلا دیتی
ہے
آہ!ہمارے مُعاشَرے کی بربادی ! افسوس صد
کروڑ افسوس !غیبت کرنے اور سننے کی عادت نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے۔ مَنقول
ہے:آگ بھی خُشک لکڑیوں کو اتنی جلدی نہیں جلاتی جتنی جلدی غیبت بندے کی نیکیوں
کوجلا کر رکھ دیتی ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۱۸۳)
میری نیکیاں کہاں گئیں؟
غیبت کی تباہ کاریوں میں سے یہ بھی ہے
کہ اِس کی وجہ سے نیکیاں ضائِع ہو جاتی ہیں جیسا کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب،
مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب عَزَّوََجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے
ارشاد فرمایا : بے شک قیامت کے روزانسان کے پاس اس کا کھلا ہو انامہ اعمال لایا
جائے گا ،وہ کہے گا:میں نے جو فُلاں فُلاں نیکیاں کی تھیں وہ کہاں گئیں؟ کہا
جائیگا:تُو نے جو غیبتیں کی تھیں اس وجہ سے مٹا دی گئی ہیں۔(اَلتَّرغِیب
وَالتَّرہِیب ج۳ ص ۳۳۲ حدیث ۳۰ )
غیبت سننا بھی حرام ہے
خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ
لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گانا گانے اور گانا سننے سے
اور غیبت کرنے اور غیبت سننے سے اور چغلی کرنے اور چغلی سننے سے منع فرمایا۔ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۵۶۰حدیث۹۳۷۸)
حضرتِ علامہ عبد الرء ُوف مُناوِی علیہ
رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں : غیبت سننے والا بھی غیبت کرنے والوں میں سے ایک
ہوتا ہے۔
(فیضُ القدیر ج۳ ص۶۱۲ تحتَ الحدیث۳۹۶۹)
غیبت سننے والا بھی غیبت
کرنے میں شریک ہے
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام
محمدبن محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی یہ حدیثِ پاک نقل کرنے کے بعد فرماتے
ہیں: تو دیکھو کس طرح سلطانِ انبیاء صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم نے
دونوں کو اس مسئلے میں جمع کیا (حالانکہ زبان سے صرف )ایک نے غیبت کی مگر دوسرے نے
اسے سنا(لہٰذا وہ بھی غیبت میں شریک ٹھہرائے گئے) (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۱۸۰)
غیبت سے روکنے کے چار
فضائل
مسلمان کی غیبت کرنے والے کو روکنے کی
قدرت ہونے کی صورت میں روک دینا واجِب ہے، روکنا ثوابِ عظیم اور نہ روکنا باعِث
عذابِ الیم (یعنی درد ناک عذاب کاباعث)ہے اس ضِمْن میں چار فَرامینِ مصطَفٰے صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُلاحَظہ فرمایئے :
(1)جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی
غیبت کی جائے اور وہ اس کی مدد پر قادِر ہو اور مدد کرے، اﷲ تعالیٰ دنیا اور آخِرت
میں اس کی مدد کریگا اور اگر باوُجُودِ قدرت اس کی مدد نہیں کی تو اﷲ تعالیٰ دنیا
اورآخِرت میں اسے پکڑے گا۔ (مُصَنَّف عَبد الرَّزّاق ج۱۰ ص۱۸۸ رقم ۲۰۴۲۶)
(2)جو شخص اپنے بھائی کے گوشت سے اس کی
غیبت (عدم موجودگی)میں روکے(یعنی مسلمان کی غیبت کی جارہی تھی اس نے روکا )تو اللہ
عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اُسے جہنَّم سے آزاد کر دے ۔ (مِشْکاۃُ الْمَصابِیح ج ۳ص ۷۰ حدیث ۴۹۸۱)
(3)جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو سے روکے( یعنی
کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نے منع کیا) تواللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ
قیامت کے دن اس کو جہنَّم کی آگ سے بچائے۔ اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:۔
وَکَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصْرُ
الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿۴۷﴾
(ترجَمہ کنزالایمان:اور ہمارے ذمہ کرم پر ہے
مسلمانوں کی مدد فرمانا۔
(پ۲۱ الروم:47) (شرحُ السنّۃ ج۶ ص۴۹۴ حدیث ۳۴۲۲)
(4)جہاں مردِ مسلم کی ہَتکِ حُرمت(یعنی بے
عزَّتی)کی جاتی ہو اور اس کی آبروریزی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اُس کی مدد نہ
کی(یعنی یہ خاموش سنتا رہا اور اُن کومَنع نہ کیا)تو اﷲتعالیٰ اس کی مدد نہیں کرے
گا جہاں اِسے پسند ہو کہ مدد کی جائے اور جو شخص مردِ مسلم کی مدد کرے گا ایسے
موقع پر جہاں اُس کی ہتکِ حُرمت (یعنی بے عزّتی)اور آبرو ریزی کی جارہی ہو،
اﷲتعالیٰ اُس کی مدد فرمائے گا ایسے موقع پر جہاں اسے محبوب (یعنی پسند)ہے کہ مدد
کی جائے۔ (سُنَنِ ابوداو،د ج۴ ص۳۵۵حدیث ۴۸۸۴)
عیب پوشی کیلئے جھوٹ جائز ہونے کی ایک صورت
غیبت میں ایک بَہُت بڑی آفت یہ بھی ہے
کہ جب''ایک فرد''کی غیبت دوسرے کے سامنے کی جاتی ہے تو بعض اوقات وہ''ایک
فرد''دوسرے کی نظر سے گر جاتا ہے اور شریعت کو یہ قَطعاًنا گوارہے کہ ایک مسلمان
دوسرے مسلمان کی نظروں میں ذلیل وخوار (DEGRADE)ہو حتّٰی کہ مسلمان کی عزّت بچانے کی نیّت سے بعض صورَت میں جھوٹ
بولنے کی بھی اِجازت ہے کیونکہ مسلمان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی
شریعت میں نہایت ہی اہمیت ہے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں چُنانچِہ دعوتِ
اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ،
''بہارِ شریعت''حصّہ 16 صَفْحَہ 161پر ہے :''کسی نے چھپ کر بے حیائی کا کام کیا
ہے، اس سے دریافت کیا گیا کہ تو نے یہ کام کیا؟ وہ انکار کرسکتا ہے کیونکہ ایسے
کام کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردینا یہ دوسرا گناہ ہوگا۔ اسی طرح اگر اپنے مسلم
بھائی کے بھید پرمُطَّلع ہو تو اس کے بیان کرنے سے بھی انکارکرسکتا ہے۔ '' (رَدُّالْمُحتارج۹ ص۷۰۵)
غیبت ایمان میں فساد پیدا
کرتی ہے
حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رضی اللہ
تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:''غیبت بندہ مؤمن کے ایمان میں اس سے بھی جلدی فساد
پیدا کرتی ہے جتنی جلدی آکلہ کی بیماری اُس کے جسم کوخراب کرتی ہے۔''(آکلہ پہلو
میں ہونے والے اُس پھوڑے کو کہتے ہیں جس سے گوشت پوست (کھال)سڑ جاتے ہیں اور گوشت
جھڑنے لگتا ہے)مزید فرمایا کرتے:اے ابنِ آدم!تم اُس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں
پا سکتے جب تک لوگوں کے عُیُوب تلاش کرنا ترک نہ کر دوجو عُیُوب تمہارے اپنے اندر
پائے جاتے ہیں، تم اُن کی اِصلاح شروع کردو اور اُن عیبوں کو اپنی ذات سے دُور
کرلو۔ پس جب تم ایسا کرو گے تو یہ چیز تمہیں اپنی ہی ذات میں مشغول کر دے گی۔ اور
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک اِس طرح کا
بندہ سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ( ذَمُّ
الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۹۳،۹۷ رقم۵۴،۶۰)
غیبت سے توبہ کا طریقہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں نَدامت
کے ساتھ توبہ واِستِغفار کیجئے ۔ جس جس کی غیبت کی ہے اُس کیلئے دعائے مغفِرت
کیجئے۔فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: غیبت کے کفّار ے
میں یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے، اُس کے لیے اِستِغفار کرے، یہ کہے: اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلَنَا وَلَہ ٗ۔ یعنی الٰہی!ہمیں اور اُسے بخش دے ۔ (الدَّعَواتُ الْکَبِیرلِلْبَیْہَقِی ج۲ص۲۹۴حدیث۵۰۷)
اگر
نام یاد نہ رہے ہوںتو مشورۃً عرض ہے کہ ہو سکے تو روزانہ وقتاً فوقتاًیوں
کہے:یااللہ عَزَّوَجَلَّ!میں نے آج تک جِتنی بھی غیبتیں کی ہیں اُن سے توبہ کرتا
ہوں ۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ! َّ میری اور آج تک میں نے جن جن مسلمانوں کی غیبت کی
ہے اُن سب کی اپنے محبوب صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلَّم کے صدقے مغفِرت فرما۔(
یاد رہے !قَبولیّتِ توبہ کیلئے یہ بھی شرط ہے کہ اُس گناہ سے دل میں بیزاری اور آئندہ
نہ کرنے کا عَزْم ہو ) ۔
(14)غیبت میں لذّت کی وجہ
حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ایک مرتبہ کہیں تشریف لئے جارہے
تھے،اِثنائے راہ شیطان کو دیکھا کہ ایک ہاتھ میں شہد اور دوسرے میں راکھ اُٹھائے
چلا جارہا تھا، آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام
نے پوچھا:اے دشمنِ خدا!یہ شہد اور راکھ تیرے کس کام آتی
ہے؟بولا:شہدغیبت کرنے والوں کے ہونٹوں پر لگاتا ہوں تاکہ اس گناہ میں وہ اور آگے
بڑھیں اور راکھ یتیموں کے چِہروں پر ملتا ہوں تاکہ لوگ ان سے نفرت کریں۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۶۶)
بد گمانی بھی غیبت ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حکایت سے
ہمیں عبرت کے بے شمار مَدَنی پھول چُننے کو ملتے ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ
کسی کے بارے میں بدگمانی بھی غیبت ہے۔یعنی کسی واضح قرینے کے بِغیر کسی کے بارے
میں بُرائی کو دل میں جما لینا کہ وہ ایسا ہی ہے بدگمانی کہلاتا ہے جو کہ غیبۃُ
الْقَلب یعنی دل کی غیبت ہے۔ کسی کے سادہ لباس وغیرہ کودیکھ کر اُسے حقیر اور
بھیک مانگنے والا فقیر جاننا بڑی بھول ہے۔ کیا معلوم ہم جسے حقیر تصوُّر کررہے ہیں
وہ کوئی گدڑی کا لعل یعنی پہنچی ہوئی ہستی ہو۔ جیسا کہ مذکورہ حکایت سے ظاہر ہوا
کہ وہ گدڑی پوش شخص کوئی عام آدمی نہیں خدا رسیدہ بزرگ تھے!