Saturday, August 13, 2016

غیبت اور اس کی تباہ کاریاں قرآن وحدیث کی روشنی میں

غیبت کی تعریف بہارِ شریعت میں
صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے غیبت کی تعریف اس طرح بیان کی ہے:کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۱۶ ص ۱۷۵)
غیبت کی تعریف از ابنِ جَوزی
حضرتِ علّامہ اَبُو الْفَرَج عَبْدُ الرَّحمٰن بِن جَوزِی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی نے اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں غیبت کی جو تعریف بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے:تو اپنے بھائی کو ایسی چیز کے ذَرِیعے یاد کرے کہ اگروہ سن لے یا یہ بات اسے پہنچے تو اسے ناگوار گزرے اگر چِہ تو اس میں سچّا ہو خواہ اس کی ذات میں کوئی نَقْص (خامی)بیان کرے یا اس کی عَقل میں یا اس کے کپڑو ں میں یا اس کے فعل یا قول میں کوئی کمی بیان کرے یا اس کے دین یا اس کے گھر میں کوئی نَقص (عیب)بیان کرے یا اس کی سواری یا اس کی اولاد، اس کے غلام یااس کی کنیز میں کوئی عیب بیان کرے یااس سےمتَعَلِّق (یعنی تعلُّق رکھنے والی)کسی بھی شے کا (برائی کے ساتھ)تذکرہ کرے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا کہ اس کی آستین یادامن لمباہے سب غیبت میں داخل ہیں ۔ (بَحْرُالدُّمُوع ص۱۸۷)
غیبت کی تباہ کاریاں ایک نظر میں
بَہُت سارے پرہیز گار نظر آنے والے لوگ بھی بِلا تکلُّف غیبت سنتے،سناتے،مسکراتے اور تائید میں سر نظر آتے ہیں، چُونکہ غیبت بَہُت زیادہ عام ہے اِ س لئے عُمُوماً کسی کی اِس طرف توجُّہ ہی نہیں ہوتی کہ ہالانکہ غیبت کرنے والا نیک پرہیز گار نہیں بلکہ فاسِق وگنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہوتا ہے۔قراٰن و حدیث اور اقوالِ بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین سے منتخب کردہ غیبت کی 20 تباہ کاریوں پر ایک سرسری نظر ڈالئے، شاید خائفین کے بدن میں جُھر جھری کی لہر دوڑ جائے!جگر تھام کر مُلاحَظہ فرمایئے:
*غیبت ایمان کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے *غیبت بُرے خاتمے کا سبب ہے*بکثرت غیبت کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی *غیبت سے نَماز روزے کی نورانیَّت چلی جاتی ہے *غیبت سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں*غیبت نیکیاں جلا دیتی ہے*غیبت کرنے والا توبہ کر بھی لے تب بھی سب سے آخِرمیں جنَّت میں داخِل ہوگا، اَلغَرض غیبت گناہِ کبیرہ، قطعی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام ہے*غیبت زنا سے سخت تر ہے*مسلمان کی غیبت کرنے والا سُود سے بھی بڑے گناہ میں گرفتار ہے*غیبت کو اگر سمندر میں ڈال دیا جائے تو سارا سمندر بدبُو دار ہو جائے*غیبت کرنے والے کو جہنَّم میں مُردار کھانا پڑے گا* غیبت مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مُترادِف ہے*غیبت کرنے والا عذابِ قبر میں گرفتار ہو گا! *غیبت کرنے والاتانبے کے ناخنوں سے اپنے چہرے اور سینے کو بار بار چھیل رہا تھا* غیبت کرنے والے کو اُس کے پہلوؤں سے گوشت کاٹ کاٹ کر کِھلایا جا رہا تھا*غیبت کرنے والا قیامت میں کتّے کی شکل میں اٹھے گا *غیبت کرنے والا جہنَّم کا بندر ہو گا*غیبت کرنے والے کو دوزخ میں خود اپنا ہی گوشت کھانا پڑے گا*غیبت کرنے والا جہنَّم کے کھولتے ہوئے پانی اور آگ کے درمیان موت مانگتا دوڑرہا ہو گا اور اس سے جہنَّمی بھی بیزار ہوں گے* غیبت کرنے والا سب سے پہلے جہنَّم میں جائے گا۔
غیبت حرام ہونے کی حکمت
حضرتِ سیِّدُنا اِمام احمدبن حَجَرمَکِّی شَافِعِی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی نقل کرتے ہیں:کسی کی برائی بیان کرنے میں خواہ کوئی سچّا ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کی غیبت کو حرام قرار دینے میں حکمت مؤمن کی عزّت کی حفاظت ميں مبالَغہ کرنا ہے اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کی عزّت و حرمت اور اس کے حُقُوق کی بَہُت زیادہ تاکيد ہے، نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کی عزّت کو گوشت اور خون کے ساتھ تَشبیہ دے کر مزید پختہ و مُؤَکَّد کر دیا اور اس کے ساتھ ہی مبالَغہ کرتے ہوئے اسے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مُتَرادِف قرار دیا چُنانچِہ پارہ 26سورۃُ الحُجُرات آیت نمبر 12میں ارشاد فرمايا:
 اَیُحِبُّ  اَحَدُکُمْ  اَنۡ یَّاۡکُلَ  لَحْمَ اَخِیۡہِ  مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ
 (ترجَمہ کنزالایمان:کیا تم میں کوئی پسند کریگا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا)
عزّت کو گوشت سے تَشبيہ دینے کی وجہ يہ ہے کہ انسان کی بے عزّتی کرنے سے وہ ایسی ہی تکليف محسوس کرتا ہے جيسا کہ اس کا گوشت کاٹ کر کھانے سے اس کا بدن درد محسوس کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ۔ کيونکہ عقلمند کے نزديک مسلمان کی عزّت کی قيمت خون اور گوشت سے بڑھ کر ہے۔ سمجھدار آدمی جس طرح لوگوں کا گوشت کھانا اچّھا نہيں سمجھتا اسی طرح ان کی عزّت پامال کرنا بدرجہ اَولیٰ اچھا تصوُّر نہيں کرتا کيونکہ يہ ایک تکليف دِہ اَمر(یعنی مُعامَلہ)ہے اور پھر اپنے بھائی کا گوشت کھانے کی تاکيد لگانے کی وجہ يہ ہے کہ کسی کے لئے اپنے بھائی کا گوشت کھانا تو بَہُت دور کی بات ہے (معمولی سا)چبانا بھی ممکن نہيں ہوتا لیکن دُشمن کا مُعامَلہ اس کے برعکس ہے۔ (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر ج۲ ص۱۰)
سینوں سے لٹکے ہوئے لوگ
سرورِ کائنات،شاہِ موجودات، محبوبِ ربُّ الْارضِ وَالسَّمٰوت عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:معراج کی رات ميں ايسی عورَتوں اور مَردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک رہے تھے، تو ميں نے پوچھا:اے جبرئيل! يہ کون لوگ ہيں؟ عرض کی:يہ منہ پر عيب لگانے والے اور پيٹھ پيچھے برائی کر نے والے ہیں اور ان کے مُتَعَلِّق اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَیۡلٌ  لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ  لُّمَزَۃِۣ ۙ﴿۱ (پ۳۰ اَلھُمَزہ:۱)
ترجَمہ کنزالایمان:خرابی ہے اس کے لئے جو لوگوں کے منھ پر عیب کرے، پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۵ص۳۰۹حدیث۶۷۵۰)
تانبے کے ناخُن
سرکارِ دو عالم،نُورِ مجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:میں شبِ معراج ایسی قوم کے پاس سے گزرا جو اپنے چہروں اورسِینوں کو تانبے کے ناخُنوں سے نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا :اے جِبرئیل !یہ کون لوگ ہیں؟ کہا:یہ لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے)تھے اور اُن کی عزّت خراب کرتے تھے۔  (سُنَنِ ابوداو،د ج ۴ ص۳۵۳حدیث ۴۸۷۸)
پہلوؤں سے گوشت کاٹ کر کھلانے کا عذاب
غیبت کے ایک اوردل ہلا دینے والے عذاب کی روایت سنئے اورتھر تھر کانپئے۔حضرتِ سیِّدُنا ابوسعید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرورِ کائنات،شاہِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس رات مجھے آسمانوں کی سَیر کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پہلوؤں سے گوشت کاٹ کر خُود ان ہی کو کھلایا جا رہا تھا ۔ ا نہیں کہا جاتا ،کھاؤ !تم اپنے بھائیوں کا گوشت کھایا کرتے تھے ۔ میں نے پوچھا :اے جبرئیل یہ کون ہیں؟ عرض کی:آقا!یہ لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔(دَلائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْھَقی ج۲ص۳۹۳،تَنبِیہُ الغافِلین ص۸۶)
جھنَّمی بندر وخِنزیر
 غیبت کی تباہ کاری تو دیکھئے کہ مشہور ولیُّ اللہ حضرتِ سیِّدُنا حاتِمِ اَصَمّ علیہ رَحمَۃُ اللہِ الاکرم فرماتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ:غیبت کرنے والاجہنَّم میں بندر کی شکل میں بدل جائے گا،جھوٹا دوزخ میں کُتّے کی شکل میں بدل جائے گا اور حاسد جہنَّم میں سُوَر کی شکل میں بدل جائے گا۔(تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص ۱۹۴)
غیبت ایمان کیلئے نقصان دہ ہے
محبوبِ ربُّ العباد عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:غيبت اور چغلی ايمان کو اس طرح کاٹ ديتی ہيں جس طرح چرواہا درخت کو کاٹ ديتا ہے۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۳ ص ۳۳۲ حدیث ۲۸)
مسلمان كی بے عزّتی كبیرہ گناہ ہے
رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ عالیشان ہے:بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں ميں سے ہے۔ (سُنَنِ ابوداو،د ج۴ ص۳۵۳حدیث۴۸۷۷)
خدا عزّوجل ومصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم كو ایذا دینے والا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزّت کا محافظ ہے مگر افسوس!ایسا نازک دور آ گیا ہے کہ اب اکثر مسلمان ہی دوسرے مسلمان بھائی کی عزّت کے پیچھے پڑا ہوا ہے جی بھر کر غیبتیں کررہا ہے اور چغلیاں کھا رہا ہے ، بِلا تکلُّف تہمتیں لگا رہا ہے ، بِلا وجہ دل دُکھا رہا ہے، دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کا مطبوعہ رسالہ ، ''ظلم کا انجام'' صَفْحَہ19تا20پر ہے:حقوقُ العباد کامُعامَلہ بڑا نازُک ہے مگر آہ! آج کل بے باکی کا دور دورہ ہے، عوام توکُجا خواص کہلانے والے بھی عُمُوماً اِس کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔غصّے کا مرض عام ہے اس کی وجہ سے اکثر''خواص''بھی لوگوں کی دل آزاری کر بیٹھتے ہیں او ر اس کی طرف ان کی بالکل توجُّہ نہیں ہوتی کہ کسی مسلمان کی بِلاوجہ شَرعی دل آزاری گناہ وحرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت ر حمۃاللہ تعالیٰ علیہ فتاوٰی رضویہ شریف جلد 24 صَفْحَہ 342 میں طَبَرانِی شریف کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:سلطانِ دو جہان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:
مَنْ اٰذٰی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللہ.
 (یعنی)جس نے (بِلاوجہِ شَرعی)کسی مسلمان کو ایذاء دی اُس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی اُس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذاء دی۔  (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط ج۲ ص۳۸۷ حدیث ۳۶۰۷)
اﷲو رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذاء دینے والوں کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پارہ22 سورۃُ الْاَحزاب آيت 57 میں ارشاد فرماتاہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿۵۷
ترجَمہ کنزالایمان: بے شک جو ایذاء دیتے ہیں اللہ( عَزَّوَجَلَّ)اور اس کے رسول کوان پر اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کی لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور اللہ (عَزَّوَجَلَّ)نے ان کیلئے ذلّت کا عذاب تیارکررکھا ہے۔۲۲الاحزاب۵۷)
مومن كی حُرمت كعبے سے بڑھ كر ہے
سُنَنِ اِبنِ ماجہ میں ہے :خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کعبہ معظمہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا :مومن کی حُرمت تجھ سے زِیادہ ہے۔(سُنَنِ اِبن ماجہ ج۴ ص۳۱۹ حدیث ۳۹۳۲)
كامل مسلمان كی تعریف
سرکارِمدینہ منوّرہ،سردارِمکّہ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :
 اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ ۔   یعنی مسلمان وہ ہے کہ اس کے ہاتھ اور زَبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔
دوقبروں میں ہونے والے عذاب كے اسباب
حضرتِ سیدنااَبی بَکْرَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حُضور نبیِّ کریم، رء وفٌ رَّحیم علیہ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسلیم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ایک آدَمی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بائیں طرف تھا۔ دَریں اَثنا ہم نے اپنے سامنے دو قبریں پائیں تو محبوبِ خدائے تَوّاب ،نُبُوَّت کے آفتاب ،جنابِ رسالت مآب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے اَمر کی وجہ سے نہیں ہو رہا، تم میں سے کون ہے جو مجھے ایک ٹہنی لا دے۔ ہم نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو میں سبقت لے گیا اور ایک ٹہنی(یعنی شاخ)لے کر حاضرِ خدمت ہو گیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے دو ٹکڑے کردیئے اوردونوں قبروں پر ایک ایک رکھ دیا پھر ارشاد فرمایا:یہ جب تک تر رہیں گے ان پر عذاب میں کمی رہے گی اور ان دونوں کو غیبت اور پیشاب کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے۔(مُسند اِمام احمد ج۷ص۳۰۴ حدیث۲۰۳۹۵)
غیبت کرنے والے کی دعا قَبول نہیں ہوتی
حضرتِ سیِّدُنا فقیہ ابو للَّیث سمر قندی علیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں:تین آدَمیوں کی دُعا قَبول نہیں ہوتی(1)جو مالِ حرام کھاتا ہو (2)جو بکثرت غیبت کرتا ہو(3)جو کہ مسلمانوں سے حسد رکھتا ہو۔  (تَنبِیہُ الْغافِلین ص۹۵)
غیبت گویا نیکیاں پھینکنے کی مشین ہے
حضرتِ سیِّدُنافضیل بن عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: غیبت کرنے والے کی مثال اُس شخص جیسی ہے جومِنجَنیق(یعنی پتّھر پھیکنے کی ہاتھ سے چلائی جانے والی پُرانے دور کی مشین)کے ذَرِیعے اپنی نیکیوں کو مشرِق و مغرِب ہر طرف پھینکتا ہے۔ (تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص۱۹۳)
غیبت کی بدبُو
غیبت کرنے سے ایک مخصوص بدبُو نکلتی ہے ۔ پہلے جب کوئی غیبت کرتا تھا تو بدبو کے سبب سب کومعلوم ہو جاتاتھا کہ غیبت ہو رہی ہے!مگر اب غیبت کی اِس قَدَر کثرت ہو گئی ہے کہ ہر طرف اس کی بدبُو کے بھبکے اُٹھ رہے ہیں مگر ہمیں بدبو نہیں آتی کیونکہ ہماری ناک اس کی بدبُو سے اَٹ گئی ہے ۔ اس کو یوں سمجھئے کہ جب گٹر صاف کی جارہی ہوتی ہے تو عام شخص اُس کی بدبُو کے باعث وہاں کھڑا نہیں رَہ سکتا مگر بھنگی کو کچھ بھی پتا نہیں چلتا اس لئے کہ اس کی ناک اس گندگی کی بدبو سے اَٹ چکی ہوتی ہے۔ چُنانچِہ فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ جلد اوّل صَفْحَہ 720پر ہے:جھوٹ اور غیبت مَعنوی نَجاست(یعنی باطِنی گندگیاں )ہیں وَ لہٰذا جھوٹے کے منہ سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ حفاظت کے فرِشتے اُس وقت اُس کے پاس سے دُور ہٹ جاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں وارِد ہوا ہے اور اسی طرح ایک بدبو کی نسبت رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے خبر دی کہ یہ اُن کے منہ کی سَڑاند(یعنی بدبُو )ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں اور ہمیں جو جھوٹ یا غیبت کی بدبُو محسوس نہیں ہوتی اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اُس سے مالُوف (یعنی اس کے عادی )ہو گئے ہماری ناکیں اُس سے بھری ہوئی ہیں جیسے چمڑا پکانے والوں کے مَحَلّے میں جو رہتاہے اُسے اُس کی بد بُو سے ایذا نہیں ہوتی دوسرا آئے تو اُس سے ناک نہ رکھی جائے ۔مسلمان اِس نفیس فائدے (یعنی عمدہ نتیجے ) کو یاد رکھیں اور اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ)سے ڈریں، جھوٹ اور غیبت ترک کریں۔ کیا معاذَاللہ (عَزَّوَجَلَّ)منہ سے پاخانہ نکلنا کسی کو پسند ہوگا؟ باطِن کی ناک کُھلے تو معلوم ہو کہ جھوٹ اور غیبت میں پاخانے سے بد تر سڑاند (یعنی بدبو)ہے۔ رسولُ اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا:''جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی بدبو سے فرِشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔''  
(سُنَنِ تِرمِذی ج۳ص۳۹۲ حدیث ۱۹۷۹)
حضرتِ سیِّدُناجابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی ہم خدمتِ اقدس حُضور سیِّدِ عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم میں حاضر تھے کہ ایک بدبُو اُٹھی، رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا:جانتے ہو کہ یہ بدبو کیا ہے، یہ ان کی بدبو ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں۔
 (ذَمُّ الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۱۰۴ رقم۷۰)
غیبت گناہِ کبیرہ ہے
حضرت سیِّدُنا امام احمدبن حَجَر مَکِّی شَافِعِی علیہ ر حمۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں:صحیح احادیثِ مبارَکہ میں ہے کہ
(۱)غیبت سُود سے بڑھ کر ہے ۔
(۲)اگر اسے (یعنی غیبت کو)سمندر کے پانی میں ڈال دیاجائے تو اسے بھی بدبودار کر دے ۔
 (۳)(غیبت کرنے والے)دوزخ میں مُردار کھا رہے تھے ۔
(۴)ان (غیبت کرنے والوں)کی فَضا بدبودار تھی ۔
(۵)انہیں(یعنی غیبت کرنے والوں کو)قبروں میں عذاب دیا جا رہاتھا۔''
ان میں سے بعض احادیثِ مبارَکہ ہی اس کے کبیرہ ہونے کے لئے کافی ہیں،پس جب یہ ساری جمع ہو جائیں تو پھر غیبت کیونکر کبیرہ گناہ نہ کہلائے گی؟  (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر ج۲ ص ۲۸)
عالم کے بارے میں احتیاط کی حکایت
حضرتِ شیخ افضلُ الدّین علیہ رَحْمَۃُ اللہِ المُبین سے جب کسی عالمِ دین کے مقام کے بارے میں پوچھا جاتا تو (غیبت میں جاپڑنے کے خوف سے فرماتے:میرے علاوہ کسی اور سے پوچھو میں تو لوگوں کو کمال اور بہتری ہی کی نگاہ سے دیکھتا(اور ہر ایک کے بارے میں حُسنِ ظن سے کام لیتا )ہوں ،میرے پاس کشف نہیں جس کے ذَرِیعے ان کے اُن مقامات کی معلومات کر سکوں جو ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ کے یہاں ہیں ۔ اور حدیث شریف میں ہے : اَلظَّنُّ اَکْذَبُ الْحدِیث۱؎ (ترجمہ :بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔       (تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص۱۹۳)
عالم کی غیبت کرنے والا رحمت سے مایوس
افسوس!!آج کل مَعاذَاللہ عُلَماء کی بکثرت غیبت کی جاتی ہے۔لہٰذا شیطان کسی عالِم دین کی غیبت پر اُبھار ے تو حضرتِ سیِّدُناابو حَفص کبیرعلیہ رحمۃ اﷲالقدیر کے اِس ارشاد کو یاد کر کے خود کو ڈرایئے:جس نے کسی فَقیہ(عالِم)کی غیبت کی تو قِیامت کے روز اُس کے چِہرے پر لکھا ہو گا:''یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت سے مایوس ہے۔''  (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۷۱)
غیبت کے مختلف طریقے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غیبت صِرف زبان ہی سے نہیں اور طریقوں سے بھی کی جا سکتی ہے مثَلاً (1) اشارے سے(2)لکھ کر(3)مُسکرا کر(مَثَلاًآپ کے سامنے کسی کی خوبی بیان ہوئی اور آ پ نے طنزیہ انداز میں مسکرا دیا جس سے ظاہِر ہوتا ہو کہ''تم بھلے تعریف کئے جاؤ، میں اِس کو خوب جانتا ہوں!'')(4) دل کے اند ر غیبت کرنا یعنی بد گُمانی کو دل میں جَما لینا ۔ مَثَلاً بِغیر دیکھے بِلا دلیل یا بِغیر کسی واضِح قرینے کے ذِہن بنا لینا کہ'' فُلاں میں وفا نہیں ہے۔''یا فُلاں نے ہی میری چیز چُرائی ہے ''یا ''فُلاں نے یوں ہی گپ لگا دیا ہے''وغیرہ(5)اَلْغَرَض ہاتھ ،پاؤں،سر، ناک، ہونٹ ، زَبان ، آنکھ ، اَبرو ، پیشانی پر بل ڈال کریا لکھ کر، فون پر SMS کر کے ، انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے ذَرِیعے ، برقی ڈاک (یعنیE.MAIL)سے یا کسی بھی انداز سے کسی کے اندر موجود برائی یا خامی دوسرے کو بتائی جائے وہ غیبت میں داخِل ہے۔
غیبت نیکیوں کو جلا دیتی ہے
آہ!ہمارے مُعاشَرے کی بربادی ! افسوس صد کروڑ افسوس !غیبت کرنے اور سننے کی عادت نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے۔ مَنقول ہے:آگ بھی خُشک لکڑیوں کو اتنی جلدی نہیں جلاتی جتنی جلدی غیبت بندے کی نیکیوں کوجلا کر رکھ دیتی ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۱۸۳)
میری نیکیاں کہاں گئیں؟
غیبت کی تباہ کاریوں میں سے یہ بھی ہے کہ اِس کی وجہ سے نیکیاں ضائِع ہو جاتی ہیں جیسا کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب عَزَّوََجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا : بے شک قیامت کے روزانسان کے پاس اس کا کھلا ہو انامہ اعمال لایا جائے گا ،وہ کہے گا:میں نے جو فُلاں فُلاں نیکیاں کی تھیں وہ کہاں گئیں؟ کہا جائیگا:تُو نے جو غیبتیں کی تھیں اس وجہ سے مٹا دی گئی ہیں۔(اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۳ ص ۳۳۲ حدیث ۳۰ )
غیبت سننا بھی حرام ہے
خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گانا گانے اور گانا سننے سے اور غیبت کرنے اور غیبت سننے سے اور چغلی کرنے اور چغلی سننے سے منع فرمایا۔  (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۵۶۰حدیث۹۳۷۸)
حضرتِ علامہ عبد الرء ُوف مُناوِی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں : غیبت سننے والا بھی غیبت کرنے والوں میں سے ایک ہوتا ہے۔
 (فیضُ القدیر ج۳ ص۶۱۲ تحتَ الحدیث۳۹۶۹)
غیبت سننے والا بھی غیبت کرنے میں شریک ہے

حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی یہ حدیثِ پاک نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: تو دیکھو کس طرح سلطانِ انبیاء صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم نے دونوں کو اس مسئلے میں جمع کیا (حالانکہ زبان سے صرف )ایک نے غیبت کی مگر دوسرے نے اسے سنا(لہٰذا وہ بھی غیبت میں شریک ٹھہرائے گئے)  (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۱۸۰)
غیبت سے روکنے کے چار فضائل
مسلمان کی غیبت کرنے والے کو روکنے کی قدرت ہونے کی صورت میں روک دینا واجِب ہے، روکنا ثوابِ عظیم اور نہ روکنا باعِث عذابِ الیم (یعنی درد ناک عذاب کاباعث)ہے اس ضِمْن میں چار فَرامینِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُلاحَظہ فرمایئے :
(1)جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس کی مدد پر قادِر ہو اور مدد کرے، اﷲ تعالیٰ دنیا اور آخِرت میں اس کی مدد کریگا اور اگر باوُجُودِ قدرت اس کی مدد نہیں کی تو اﷲ تعالیٰ دنیا اورآخِرت میں اسے پکڑے گا۔  (مُصَنَّف عَبد الرَّزّاق ج۱۰ ص۱۸۸ رقم ۲۰۴۲۶)
(2)جو شخص اپنے بھائی کے گوشت سے اس کی غیبت (عدم موجودگی)میں روکے(یعنی مسلمان کی غیبت کی جارہی تھی اس نے روکا )تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اُسے جہنَّم سے آزاد کر دے ۔  (مِشْکاۃُ الْمَصابِیح ج ۳ص ۷۰ حدیث ۴۹۸۱)
  (3)جو مسلمان اپنے بھائی کی آبرو سے روکے( یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نے منع کیا) تواللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اس کو جہنَّم کی آگ سے بچائے۔ اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:۔
 وَکَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿۴۷
 (ترجَمہ کنزالایمان:اور ہمارے ذمہ کرم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا۔  
۲۱ الروم:47) (شرحُ السنّۃ ج۶ ص۴۹۴ حدیث ۳۴۲۲)
  (4)جہاں مردِ مسلم کی ہَتکِ حُرمت(یعنی بے عزَّتی)کی جاتی ہو اور اس کی آبروریزی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اُس کی مدد نہ کی(یعنی یہ خاموش سنتا رہا اور اُن کومَنع نہ کیا)تو اﷲتعالیٰ اس کی مدد نہیں کرے گا جہاں اِسے پسند ہو کہ مدد کی جائے اور جو شخص مردِ مسلم کی مدد کرے گا ایسے موقع پر جہاں اُس کی ہتکِ حُرمت (یعنی بے عزّتی)اور آبرو ریزی کی جارہی ہو، اﷲتعالیٰ اُس کی مدد فرمائے گا ایسے موقع پر جہاں اسے محبوب (یعنی پسند)ہے کہ مدد کی جائے۔  (سُنَنِ ابوداو،د ج۴ ص۳۵۵حدیث ۴۸۸۴)
   عیب پوشی کیلئے جھوٹ جائز ہونے کی ایک صورت
غیبت میں ایک بَہُت بڑی آفت یہ بھی ہے کہ جب''ایک فرد''کی غیبت دوسرے کے سامنے کی جاتی ہے تو بعض اوقات وہ''ایک فرد''دوسرے کی نظر سے گر جاتا ہے اور شریعت کو یہ قَطعاًنا گوارہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی نظروں میں ذلیل وخوار (DEGRADE)ہو حتّٰی کہ مسلمان کی عزّت بچانے کی نیّت سے بعض صورَت میں جھوٹ بولنے کی بھی اِجازت ہے کیونکہ مسلمان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی شریعت میں نہایت ہی اہمیت ہے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ''بہارِ شریعت''حصّہ 16 صَفْحَہ 161پر ہے :''کسی نے چھپ کر بے حیائی کا کام کیا ہے، اس سے دریافت کیا گیا کہ تو نے یہ کام کیا؟ وہ انکار کرسکتا ہے کیونکہ ایسے کام کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردینا یہ دوسرا گناہ ہوگا۔ اسی طرح اگر اپنے مسلم بھائی کے بھید پرمُطَّلع ہو تو اس کے بیان کرنے سے بھی انکارکرسکتا ہے۔ ''  (رَدُّالْمُحتارج۹ ص۷۰۵
غیبت ایمان میں فساد پیدا کرتی ہے
حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:''غیبت بندہ مؤمن کے ایمان میں اس سے بھی جلدی فساد پیدا کرتی ہے جتنی جلدی آکلہ کی بیماری اُس کے جسم کوخراب کرتی ہے۔''(آکلہ پہلو میں ہونے والے اُس پھوڑے کو کہتے ہیں جس سے گوشت پوست (کھال)سڑ جاتے ہیں اور گوشت جھڑنے لگتا ہے)مزید فرمایا کرتے:اے ابنِ آدم!تم اُس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتے جب تک لوگوں کے عُیُوب تلاش کرنا ترک نہ کر دوجو عُیُوب تمہارے اپنے اندر پائے جاتے ہیں، تم اُن کی اِصلاح شروع کردو اور اُن عیبوں کو اپنی ذات سے دُور کرلو۔ پس جب تم ایسا کرو گے تو یہ چیز تمہیں اپنی ہی ذات میں مشغول کر دے گی۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ  کے نزدیک اِس طرح کا بندہ سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔                         ( ذَمُّ الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۹۳،۹۷ رقم۵۴،۶۰)
غیبت سے توبہ کا طریقہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں نَدامت کے ساتھ توبہ واِستِغفار کیجئے ۔ جس جس کی غیبت کی ہے اُس کیلئے دعائے مغفِرت کیجئے۔فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: غیبت کے کفّار ے میں یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے، اُس کے لیے اِستِغفار کرے، یہ کہے: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلَہ ٗ۔ یعنی الٰہی!ہمیں اور اُسے بخش دے ۔  (الدَّعَواتُ الْکَبِیرلِلْبَیْہَقِی ج۲ص۲۹۴حدیث۵۰۷)
 اگر نام یاد نہ رہے ہوںتو مشورۃً عرض ہے کہ ہو سکے تو روزانہ وقتاً فوقتاًیوں کہے:یااللہ عَزَّوَجَلَّ!میں نے آج تک جِتنی بھی غیبتیں کی ہیں اُن سے توبہ کرتا ہوں ۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ! َّ میری اور آج تک میں نے جن جن مسلمانوں کی غیبت کی ہے اُن سب کی اپنے محبوب صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلَّم کے صدقے مغفِرت فرما۔( یاد رہے !قَبولیّتِ توبہ کیلئے یہ بھی شرط ہے کہ اُس گناہ سے دل میں بیزاری اور آئندہ نہ کرنے کا عَزْم ہو ) ۔
(14)غیبت میں لذّت کی وجہ
    حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ایک مرتبہ کہیں تشریف لئے جارہے تھے،اِثنائے راہ شیطان کو دیکھا کہ ایک ہاتھ میں شہد اور دوسرے میں راکھ اُٹھائے چلا جارہا تھا، آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے پوچھا:اے دشمنِ خدا!یہ شہد اور راکھ تیرے کس کام آتی ہے؟بولا:شہدغیبت کرنے والوں کے ہونٹوں پر لگاتا ہوں تاکہ اس گناہ میں وہ اور آگے بڑھیں اور راکھ یتیموں کے چِہروں پر ملتا ہوں تاکہ لوگ ان سے نفرت کریں۔  (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۶۶)
بد گمانی بھی غیبت ہے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حکایت سے ہمیں عبرت کے بے شمار مَدَنی پھول چُننے کو ملتے ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کے بارے میں بدگمانی بھی غیبت ہے۔یعنی کسی واضح قرینے کے بِغیر کسی کے بارے میں بُرائی کو دل میں جما لینا کہ وہ ایسا ہی ہے بدگمانی کہلاتا ہے جو کہ غیبۃُ الْقَلب یعنی دل کی غیبت ہے۔ کسی کے سادہ لباس وغیرہ کودیکھ کر اُسے حقیر اور بھیک مانگنے والا فقیر جاننا بڑی بھول ہے۔ کیا معلوم ہم جسے حقیر تصوُّر کررہے ہیں وہ کوئی گدڑی کا لعل یعنی پہنچی ہوئی ہستی ہو۔ جیسا کہ مذکورہ حکایت سے ظاہر ہوا کہ وہ گدڑی پوش شخص کوئی عام آدمی نہیں خدا رسیدہ بزرگ تھے!

Monday, August 8, 2016

The benifits and Masail of Qurbani in the light of Holy Quran.

قربانی کے فضائل و مسا ئل                                      
مولانامحمد سلمان رضاجامعؔی ۔ علی گڑھ

                    اسلام کے معنی اطاعت و فرمانبرداری ، تسلیم و خود سپردگی کے ہیں جو خود رائی ، خود بینی ،خود سری اور سرکشی کے برعکس ہے ، اسلام کے تمام احکام میں یہی معنی نمایاں و ظاہر ہے کہ بندہ اپنے نفس اور شیطان کی مخالفت کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہمہ تن مشغول ہو جائے ، اپنی خواہش و مرضی کو چھوڑکر خدائے ذو الجلال کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے میں محو اور مصروف ہو جائے ،اپنی رائے اور ارادے کو مشیت خداوندی کے آگے قربان کردے ، خود سری کو ترک کرکے خود سپردگی کا شیوہ اختیار کرلے، خود بینی کو خیرباد کہہ کر حکم یزدانی کی تعمیل کو اپنا شعار بنالے ، قربانی کا معنی و مفہوم اور حقیقت قربانی یہی ہے۔
           قربانی کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :                   
             ﴿  فصل لربّک وانحر﴾  (التکاثر :۲)   تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ (کنز الایمان)
       قربانی کے متعدد فضائل اور اس کے اجر و ثواب کی بابت متعدد احادیث شریفہ واردہیں ۔
               حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نےعرض کیا یا رسول اللہﷺ ! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا:یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔صحابہ نےعرض کیا کہ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی ۔صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جن جانوروں کے بدن پر اون ہے کیا اس پر بھی کچھ ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ)
             ایک دوسرے مقام پر رسول اکرمﷺ نے فرمایا:                                                                                                                             قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو سب سے پسندیدہ عمل خون بہانا ہے ، یقیناً وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ،بال اور کھروں کےساتھ آئے گا ۔اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلےوہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت حاصل کر لیتا ہے ، تو تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو ۔ (جامع ترمذی،حدیث:۱۵۷۲)
              قربانی واجب ہوتے ہوئے اور مالی وسعت ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنا  بہت بڑی بد نصیبی اور نیکیوں سے محرومی کا اور رسول اکرمﷺ کی ناراضگی کا سبب ہے ۔یہاں تک کہ آپ ﷺ نے وسعت ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنے والوں کو عید گاہ آنے سے روک دیا ہے۔                                                وجوب قربانی کے شرائط : (۱) مسلمان ہونا(۲)مقیم ہونا ، لہٰذا مسافر پر قربانی واجب نہیں البتہ نفلی طور پر کرے تو ثواب پائے گا (۳)مالک نصاب ہونا : یعنی قربانی کے دنوں میں ساڑھے سات تولہ (۹۳ گرام  ۳۱۲ملی گرام ) سونا یا ساڑھے باون تولہ (  ۶۵۳ گرام  ۱۸۴ ملی گرام)چاندی کا مالک ہونا یا حاجت اصلیہ کے علاوہ کسی ایسی چیزکا مالک ہوجس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابرہوتو وہ مالدار ہے، اس پر قربانی واجب ہے۔(۴) بالغ ہونا (۵) وقت کا پایا جانا ، یعنی دس ذی الحجہ کو صبح صادق سے بارہ ذی الحجہ کو غروب آفتاب تک  یعنی تین دن اور دو راتیں یہ قربانی کے دن ہیں اور انہیں کو ایام نحر کہا جاتا ہے ۔لیکن دسویں ذی الحجہ کا دن سب سے افضل ہے ،اس کے بعد گیارہ پھر بارہ۔
مسئلہ : اگر گھر  میں بیوی دونوں صاحب نصاب ہوں  تو دونوں پر قربانی واجب ہے۔ ایک کی قربانی دوسرے کو کافی نہیں ہوگی  بلکہ الگ الگ کرنا لازم ہے ۔اسی طرح اگر گھر کے تمام افراد مالک نصاب ہیں تو ان سب پر قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ : اگر کسی شخص پر قربانی واجب ہے اور دوسرے کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو پہلے اپنی قربانی کرے  پھر کسی مرحوم کی طرف سے یا  حضور اکرم ﷺ کی طرف سے  ،لیکن اگر کسی پر قربانی واجب نہیں تو دوسرے لوگوں کی طرف سے کرسکتا ہے ۔ خیال رہے کہ مالک نصاب پر ہر سال قربانی واجب ہے ، جو اسی کے نام سے ہوگی۔
قربانی کے جانور: اونٹ ،گائے، بھینس،بیل ، بکری، دنبہ ،بھیڑ نرو مادہ اور خصی و غیر خصی سب کی قربانی ہو سکتی ہے ۔ لیکن  اونٹ پانچ سال ، گائے بھینس بیل دو سال ، بکری ، دنبہ  اور بھیڑ ایک سال کی ہوں یا زیادہ کی ۔ اس سے کم کی ہوں تو جائز نہیں ۔
قربانی کا جانور موٹا تازہ ،خوبصورت بے عیب ہونا چاہئے۔ مثلاً اندھا، کانا،لنگڑا ، کان کٹا ،بہت زیادہ دبلا ،بے دانت کا ، تھن کٹی، تھن سوکھا ، ناک کٹا  ، بیمار،خنثی اور غلاظت کھانے والا ان سب کی قربانی جائز نہیں ۔
 مسئلہ : سینگ اگر پیدائشی نہ ہویا درمیان سے ٹوٹ گیا ہوتو  اس کی قربانی جائز  ہے ۔ اسی طرح اگر قربانی کرتے وقت جانور اچھلا کودا، اور عیب دار ہو گیا تو حرج نہیں ۔ (در مختار، رد المختار)
 جس  جانور کے دانت نہ ہوں  یا جس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں ، اس کی قربانی نا جائز ہے بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا نا جائز ہونے کے لئے کافی ہے اور گائے بھینس میں دو خشک ہوں تو نا جائز ہے ۔ جس کی ناک کٹی ہو یا خنثیٰ جانوریعنی جس میں نرو مادہ دونوں علامتیں ہوں اور جلّا لہ جو صرف غلیظہ کھاتا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے ۔ (در مختار)  
قربانی کے جانور میں شرکت : اونٹ ، گائے،بیل اور بھینس میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں ، لیکن شرکا  میں سے کسی کا حصہ ساتویں سے کم نہ ہو ۔اگر کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوا تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔ہاں البتہ  ساتویں حصہ سے زیادہ ہو سکتا ہے  مثلاً گائے، اونٹ یا بیل کی قربانی میں چار، پانچ یا چھ افراد شریک ہوکر قربانی کریں تو پھر ایسا ہو سکتا ہے ۔ (در مختار، رد المختار)  
قربانی کا گوشت اورکھال: قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں۔ ایک حصہ فقیروں اور غریبوں کو دیں  اور ایک دوستوں عزیزوں کو دیں  اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے رکھیں ۔ اگر گھر کے افراد زیادہ ہو ں تو سب کا سب گھر والوں کے لئے رکھا جا سکتا ہے اور سارے کا سارا صدقہ بھی کیا سکتا ہے ۔ (فتاوی ہندیہ)
قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے ۔اسی طرح قصائی کو ذبح کرنے کی اجرت میں دینا بھی جائز نہیں ۔اجرت علاحدہ سے دینی چاہئے۔اسی طرح  قربانی کا گوشت غیر مسلم جیسے عیسائی ،یہودی،مجوسی اور ہندو وغیرہ کو دینا نا جائز ہے ۔
قربانی کی کھال  کے بہتر ین مصارف غربا ،فقرا اور دینی مدارس ہیں ، البتہ اسے اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے رکھنا جائز ہے مثلاً جائےنماز،کتابوں کی جلد اور جوتہ وغیرہ کوئی بھی چیز بنا کر استعمال کی جا سکتی ہے لیکن ان چیزوں کو کرایہ پر دینا جائز نہیں،اگر دے دیں تو جو کرایہ ملے اس کا صدقہ کردینا واجب ہے۔
قربانی کی گائے میں جو لوگ شریک ہوں ،وہ کھال میں بھی اپنے اپنے حصے کے برابر شریک ہوں گے کسی ایک شریک کو یہ کھال باقی شرکا سے اجازت لئے بغیر اپنے پاس رکھ لینا یا کسی کو دے دینا درست نہیں ۔    
خیال رہے کہ ایسے مبارک موقع پر ہمیں غربا و فقرا کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ امرا کو تو دعوت دیتے ہیں لیکن غربا کی طرف توجہ نہیں دیتے ایسا کرنا ایک مسلمان کے لئے نا مناسب ہے۔
قربانی کا طریقہ:قربانی کرنے سے پہلےجانور کو چارہ پانی دیں ، بھوکا پیاسا ذبح نہ کریں اور ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور ذبح نہ کریں ۔چھری پہلے سے خوب تیز کرلیں پھر جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھیں اور جلدی سے ذبح کردیں ، ذبح کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل دعا پڑھیں :
إنّي وَجَّهتُ وَجهِيَ لِلَّذي فَطَرَ السَّماواتِ وَالأَرضَ حَنيفًا ۖ وَما أَنا مِنَ المُشرِكين• إِنَّ صَلاتي وَنُسُكي وَمَحيايَ وَمَماتي لِلَّهِ رَبِّ العالَمينَ•لا شَريكَ لَهُ ۖ وَبِذٰلِكَ أُمِرتُ وَأَنا أَوَّلُ المُسلِمينَ •اللھم لک و منک•
یہ دعا پڑھنے کے بِسمِ اللہُ اَللہُ اَکْبَر پڑھ کر  ذبح کریں ،جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے نہ تو اس کے پاؤں کاٹیں اورنہ کھل اتاریں ۔
ذبح کے بعد کی دعا :اَلَلّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیلِکَ اِبْرَاھِیمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَ حَبِیْبِکَ محُمَّدٍ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ۔
اور اگر قربانی اپنی طرف سے نہیں بلکہ کسی دوسرے کی طرف سے ہے تو منی کی جگہ  من کہہ کر اس شخص کا نام لیں ،جس کی طرف سے قربانی ہے اور اگر قربانی سات افراد کی طرف سے ہے تو من کے بعد ان سات افراد کے نام لئے جائیں ، جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے۔
           قارئین ! اس میں کوئی شک نہیں کہ قربانی کے بےشمار فوائد ہیں اور رضائے الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے لیکن یاد رہے کہ وہی قربانی بارگاہ رب العزت میں قابل قبول اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاسبب ہےجو ریا کاری ،شہرت اور دنیوی منفعت سے خالی ہو اورخلاف شریعت جملہ امور سےمحفوظ ہو۔اور قربانی سے مقصود  صرف بہ صرف اللہ تعالیٰ لی رضا ہو ۔



                                   

التصوف الاسلامی

بسم الرحمن الرحیم
       الحمد للہ الذی خص عبادہ الأخیار، فمحا من قلوبھم ظلم۔۔۔ وحب الأغیار و حیاھم بالحلم والصفا من سائر الأکدار۔ والصلوة والسلام علی من توجہ اللہ بتاج الوقار ونور بوجودہ جمیع الأقطار وعلی آلہ الأطہار وأصحابہ الأبرار۔
       اعلم أیھاالإنسان، إن تشتہی و تود أن تکون مومنا کاملا و مخلصا للہ تعالی ومنورا بأنوارہ ومتجلیا بتجلیاتہ وتود أن حصلت لک النجاۃ الأبدی والفلاح الدائمی فعلیک أن تنسلک بأی طریق من طرق الصوفیۃ العلیۃ قدس اللہ تعالی أسرارھم العالیۃ{فإذن لابد علیک أولا أن تتعلم علوم الشرعیۃ من العقائد السنیۃ والأحکام العملیۃ۔ [کن عاملا و منتثلا لأمرھاوجنب عن نواھیھا وصدر متخلقا بالسیرۃ النبویۃعلی صاحبھا الصلوۃ وآلہ والأخلاق الحسنۃ المرضیۃ]واصرف نفسک من مشیتھا ومتأدبا بالأداب التی ذکرھا الصوفیۃ وتُب عن جمیع المعاصی والذنوب وأدِّ الحقوق لأربابھا۔
وثانیا، اجتھد فی طلب الشیخ الکامل المکمل فإن وفقت وھدیت إلی الشیخ المذکور فلک الطوبی فھذہ النعمۃ العظمی خصوصا فی ھذا الزمان۔
طلب الشیخ الکامل واجب:
       لابد لک أن تطلب الشیخ الکامل المکمل و ۔۔۔یوصلہ إلی اللہ تعالی فإن وجد ذلک فعلیک أن تبایع علی ید ذلک وتلتزم صحبتہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قال المجدد رحمہ اللہ تعالی:
       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تفویض جمیع مراداتہ إلیہ وکونہ کالمیت بین یدی الغسال لدیہ۔ والفناءالأول ھو الفناء فی الشیخ ویکون ھذا الفناء فی اللہ۔ فإن طریق الإفادۃ والاستفادۃ مبنی علی وجود المناسبۃ بین الطرفین، والطالب لا بد لہ أولا من برزخ ذی جھتین لکونہ فی الابتداء فی غایۃ الدناءۃ ونھایۃ الخساسۃ وعدم مناسبۃ أصلا لجناب قدسہ جل سلطانہ من ھذہ الحیثیۃ وذلک البرزخ ھو الشیخ الکامل۔
       قال الشیخ العارف باللہ أبو علی الدقاق قدس سرہ:
       ’’الشجرۃ من اللہ تعالی التی تنبت بنفسھا لاثمرۃ لھا أن کان لھا ثمرۃ تکون بغیر لذۃ وسنۃ اللہ جاریۃ علی أنہ لابد من السبب فکما أن التوالد و التناسل الجسدی لایحصل بغیر الوالد والوالدۃ کذلک التوالد المعنوی۔ حصولہ بغیر الکتربیۃ متعذرۃ۔‘‘
وقال فی الرسالۃ المکیۃ:
’’من لا شیخ لہ فشیخہ الشیطان۔‘
قال فی الحدیقۃ الندیۃ:
’’أن تعلم علم الباطن من المھلکات والمنجبات وآداب السلوک والمعاملات فرض عین علی کل من لم یرزق قلبا سلیما بالجذب الإلھی والعلم اللدنّی والنفس القدسیۃ الفطریۃ وقلیل ما ھم۔ وأحکام العرف إنما تبتنی علی الأکثر والأغلب وتعلم علم الظاھر لایغنی عن استفادتہ کما ثبت ذلک من کثیر من العلماء الأکابر المتقدمین والمتأخرین من الحنفیۃ والشافعیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ۔‘‘ ثم بعد ذلک ذکر أسماءھم وقال: ’’فإن ھؤلاء العلماء الأجلۃ بعد التصنع من علوم الظاھر اشتغلوا بتحصیل علوم الباطن واستفادتھا من أھلھا بالصحبۃ والخدمۃ والسلوک و حسن الاعتقا والإخلاص والتخلیۃ من الرذائل والتحلیۃ بالفضائل کما نقل بعض العلماء، قال: رأیت الإمام الغزالی فی البریۃ وعلیہ مرقعۃ وبیدہ معکاز(؟) ورکوۃ، فقلت لہ: یاإمام، ألیس التدریس فی بغداد أفضل من ھذا؟فنظر إلیّ تنفرّا(؟) وقال لی: لما بزغ بدرالسعادۃ فی فلک الإرادۃ تجب۔۔۔ شمس العقول إلی مغرب الوصول۔
تشریح بعض مصطلحات الصوفیۃ :
التصوف:
حدہ:                      ھو علم یعرف بہ أحوال النفس و صفاتہ الذمیمۃ والحمیدۃ۔
موضوعہ:              النفس من حیث ما یعرض لھا من الأحوال  والصفات۔
غایتہ:                     التوصل بہ إلی تخلیۃ القلب عن الأغیار وتجلیتہ بمشاھدۃ الملک الغفار۔
حکمہ:                    الوجوب العینی علی کل مکلف لأنہ کما یجب تعلم ما یصلح الظاھر کذلک یجب تعلم ما یصلح الباطن۔
استمدادہ: فھو من کلام اللہ وکلام رسولہﷺ۔
فضلہ:                    فھو فوق أنہ علی۔۔۔ سائر العلم من جھۃ أنہ یوصلہ إلی ما ذکر۔
نسبتہ للعلوم:      فھی ۔۔۔أنہ أصل کل علم وماسواہ فرع۔
نسبتہ للباطن:      کنسبۃ الفقہ إلی الظاھر۔
واضعوہ:                فھم الأیمۃ الأعیان العارفون بربھم المنان۔
فائدۃ:                                ۔۔۔
اعلم أن أقوال المشایخ فی معنی التصوف تزید علی ألف قول کما فی ’’العوارف‘‘ وکل عبر بما غلب علیہ النظر إلیہ و أخبر بما لہ۔ منھا قول سیّد الطائفۃ الجنید قدس اللہ سرہ:’’ھو أن یتمسک الحق عنک ویجنبک بہ‘‘۔ ومنھا قول لبشر ابن الحارث رحمھما اللہ:’’الصوفی من صفا قلبہ للہ تعالی۔‘‘ ومنھا قول عمر ابن عثمان المکی رحمہ اللہ:’’أن یکون العبد فی کل وقت بما ھو أولی بہ فی الوقت‘‘۔ومنھا قول رویم رحمہ اللہ:’’التصوف مبنی علی ثلاث خصال: التمسک بالفقر والافتقار والتحقق بالبذل والإیثار وترک التعرض والاختیار۔‘‘ومنھا قول سھل رحمہ اللہ تعالی:’’الصوفی من صفا من الکدر وامتلأ من الفکر واستوی۔۔۔۔۔۔وانقطع إلی اللہ من البشر۔‘‘(ملتقط من الکفایۃ)۔ ھذہ التعریفات کلھا تنبئ عن أحوال الصوفیۃ و ۔۔۔۔۔۔
واعلم أیضا کما للمشایخ فی معنی التصوف أقوال مختلفۃ کذلک فی مأخذہ آراء مختلفۃ مذکورۃ التفصیل فی کتب التصوف۔
أرکان التصوف:
أما أرکانہ فی الظاھر فعند البعض خمسۃ:
 (۱) الخدمۃ (۲) والخرقۃ (۳) والخلوۃ (۴) والصحبۃ (۵) والفتوّۃ۔
وأرکان باعثہ أیضا ٰخمسۃ:
العلم والعمل والحال والقلب والمعرفۃ۔(الرسالۃ المکیۃ)
وعند البعض أرکانہ أربعۃ:
 (۱)  قلۃ الطعام (۲) قلۃ الکلام (۳)قلۃ المنام (۴)قلۃ الاختلاط مع الأنام۔
السیر والسلوک:
قال الشیخ محمد زاھدﻱ فی إرغام المرید:
’’اعلم أولا أنہ لا یخفی أن کل من أمعن   النظر والتأمل فی ذاتہ وأحوال نفسہ یجد نفسہ ناقصۃ لذاتھا مفتقرۃ إلی الغیر فی الاستکمال ولھذا تصوف المرء علی ذلک لا جرم ینبعث من باطنہ شوق إلی الکمال فینتھض متفحصا لأسبابہ فحینئذ یکون ذلک المرء محتاجا إلی حرکہ في طلبہ۔ وأھل الطریقۃ سموا تلک الحرکۃ بالسیر والسلوک۔
الکمالات نوعین:
والکمالات أما علمیۃ أوعملیۃ، والسلوک  متکفل لکلھما لأن أشرف العلوم قدرا وأعظمھا جدوی ھو ما أنتجہ التقوی عن المعارف الربانیۃ المعبرۃ عنھا بعلم الولایۃ التی خیّر النبیﷺ فی بثھا وعدم بثھا لیلۃ المعراج علی ما ورد في الحدیث وھو منتھی علوم ما دون الأنبیاء۔إنما ذلک بالسلوک والمجاھدۃ الصحیحۃ لا بمجرد أعمال الفکرۃ والقریحۃ ولأن غایۃ الکمالات العملیۃ التی تتحلّی بھا النفوس الزکیۃ ھی تھذیب الأخلاق بما یلیق۔
غایۃ السلوک:
بحضرۃ الإطلاق وھو الفائدۃ المترتبۃ مع السیر والسلوک إذ الغایۃ منہ أن تحصل لنفس الإنسان  ملکۃ تصدر منھا الأفعال الإرادیۃ جمیلۃ طبعا۔وموضوعہ ما مر فی حد التصوف۔
الفرق بین السلوک والتصوف:
العلم الباحث عن أحوال السلوک یسمی علم التصوف۔
أقسام السیر:
            قال سیدنا الشیخ المجدد للألف الثاني قدس سرہ:
            ’’السیر والسلوک عبارۃ عن حرکۃ علمیۃ التی ھي من مقولۃ کیف ولا مجال للحرکۃ الأینیۃ ھھنا۔ والسیر علی أربعۃ أقسام:
الأول: السیر إلی اللہ ھو عبارۃ عن حرکۃ علمیۃ التي تصعد من علم الأسفل إلی الأعلی فالأعلی إلی أن ینتھي إلی علم الواجب تعالی بعد علوم الممکنات کلھا وزوالھا بأسرہ فھذہ الحالۃ ھو المعبر بالفناء۔
الثانی: السیر فی اللہ ھو عبارۃ عن حرکۃ علمیۃ في مراتب الوجوب من الأسماء والصفات والشیون والاعتبارات والتقدیسات والتنزیھات إلی أن ینتھي إلی المرتبۃ التی لایمکن التعبیر عنھا بعبارۃ ولا یشار إلیھا بإشارۃ ولا یسمی باسم ولا یکنی بکنایۃ ولایعلمھا عالم ولا یدرکھا مدرک وھذا السیر مسمی بابقاء۔
والثالث: السیر عن اللہ باللہ ھو أیضا عبارۃ عن حرکۃ علمیۃ التي ینزل من العلم الأعلی إلی العلم الأسفل فالأسفل إلی أن یرجع إلی الممکنات رجوع القھقریٰ، ورجع عن اللہ مع اللہ وھو الواجد الفاقد وھو الواصل المھجور وھو القریب البعید۔
والرابع: السیر فی الأشیاء، وھو عبارۃ عن حصول علوم الأشیاء شیئا فشیئا بعد زوال علوم الأشیاء کلھا فی السیر الأول فالسیر الرابع مقابل للسیر الأول والسیر الثالث للسیر الثاني کما تریٰ۔
اعلم أن السیر إلی اللہ وفی اللہ متوصل نفس الولایۃ التي عبارۃ عن الفناء والبقاء والثالث والرابع لحصول مقام الدعوۃ الذی ھو مخصوص بالأنبیاء صلوات اللہ تعالی و تسلیماتہ علی جمیعھم عموما وعلی أفضلھم خصوصھا۔
سیر آفاقی و سیر أنفسي:
            وللصوفیۃ سیران آخران مسمیان بالسیر الآفاقي والأنفسي،کما قال اللہ تعالی في القرآن المجید: ’’ سَنُرِیۡہِمۡ  اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ  وَ فِیۡۤ   اَنۡفُسِہِمۡ ‘‘۔ قال القاضي ثناء اللہ رحمہ اللہ تعالی:’’ لابد ھھنا تعیین ۔۔۔ لتحصیل الکمال من أمرین: أحدھما الکسب،ھو عبارۃ عن العبادات والریاضات بحسب تجویز الشیخ الکامل المکمل کي تدفع الأمر التي کثفت وظلمت بمصاحبۃ لطائف الخلق ونسواأنفسھم وخالقھم۔
            وثانیھما جذب الشیخ الکامل المکمل کي یعطي النسبۃ والقرب الإلہي ویوصل عن المضیق إلی أوج الکمال وأولیاء أکثر الطرق یقدمون السلوک علی الجذب نظرا أن رفع الموانع عندھم علی تحصیل المقاصد، فھم یأمرون المریدین بالأذکار وریاضۃ النفس ویمدونھم بتوجھاتھم العالیۃ کي تصفی وتزکی لطائف الأمر وتتحلی النفس بالأخلاق المرضیۃ من التوبۃ والإنابۃ والزھد والتوکل والصبر والرضا وسائر مقامات العشرۃ للسلوک، فإذن یستعد السالک للقرب الإلھي فحینئذ یجذبہ الشیخ إلی اللہ تعالی ویعطیہ القرب الإلھي ویقال لھذ السالک السالک المجذوب وھذا السیر سیر آفاقي، لأن ھذہ المشائخ لا یحکمون بتزکیۃ العناصر والنفس ولطائف عالم الأمرحتی یلاحظ في عالم المثال خارجا عن نفسہ۔ واعلم أن لکل لطیفۃ من اللطائف نورا یختفي بھا فلما ظھر ذلک النور یحکم الشیخ بصفائھا۔
            ثم اعلم أن قطب الطرائق والحقائق السید خواجہ بھاء الدین النقشبندي قدس سرہ دأبھم بتقدیم الجذبۃ علی السلوک، فشیوخ طریقہ قدس سرہ أولا یلقون الذکر في لطائف الأمر حتی أن القلب والروح والسر والخفي والأخفی أن تکون فانیۃ ومستھلکۃ في أصولھا ویقال لھذا السیر ’’السیر الأنفسي‘‘ وفي ھذا السیر یحصل السیر الأٓفاقي غالبا لأن ظلمۃ لطائف الأمر وکدورتھا قد زالت و القرب أیضا قد حصل۔ ثم بعد ذلک یأمرون المرید بالریاضۃ لتزکیۃ النفس والقالب۔ فبریاضۃ النفس وإمداد توجھات الشیخ تحصل تزکیۃ النفس والعناصدر للمرید ویقال لھذا السالک’’مجذوب سالک‘‘۔ وھذا السیر ھو اندراج النھایۃ في البدایۃ لا الجذب الذي یحصل للمرید فی نھایۃ الأمر اندرج فی ابتدائہ۔
            اعلم أن ھذا السیر ھو أسرع و أسھل لأن المرید أمر بریاضۃ النفس بعد فناء لطائف الأمر۔۔۔۔۔۔۔قد انطفت بمجاورۃ لطائف الأمر والریاضۃ قد سھلت علی المرید وزاد ثواب العبادۃ بعد فناء لطائف الأمر۔
المعرفۃ:
            ھي لغۃ العلم وفي العرف اسم لعلم۔۔۔ نکرۃ وفي عبارۃ الصوفیۃ:’’المعرفۃ ھو العلم الذي لا یقبل الشک إذا کان المعلوم ذات اللہ تعالی وصفاتہ۔
أقسام المعرفۃ:
            قال في المعتقد، ناقلا عن العلماء الأعلام، حاصلہ:
            ’’المعرفۃ علی أربعۃ أقسام‘‘۔ (البکري)
            قال السید الکبری المکي رحمہ اللہ تعالی:
            ’’معرفۃ اللہ تعالی نور یقذفہ في قلب العبد فیری بذالک النور أسرار ملک الشاہد، غیب ملکوتہ ویلاحظ صفات جبروتہ وھي لا تحصل إلا بفیض إلھي۔‘‘ وأیضا قال:’’یستحیل الوصول إلی معرفۃ اللہ بغیر اللہ ولا سبیل إلی معرفۃ اللہ تعالی إلا باللہ، فإن الأفھام والأوھام والخواطر عاجزۃ قاصرۃ عن إدراک تصورھا بصورھا وععھا فکیف یطیق إدراک مصورھاومعللھا؟ إنما الحق سبحانہ خلق خلقہ کما شاء علی ماشاء و وفق من شاء کما شاء وعرف من شاء ما شاء۔
المعرفۃ والعارف:
            قال الإمام القشیري قدس سرہ:
            ’’المعرفۃ صفۃ من عرف اللہ بأسمائہ وصفاتہ ثم صدق اللہ في معاملاتہ ثم نقی عن أخلاقہ الروحیۃ۔ ثم طال وقوفہ بالباب، ودام بالقلب اعتکافہ۔۔۔۔۔۔من اللہ بجمیل إقبالہ وصدق في جمیع إحوالہ وانقطع عن ھواجس نفسہ ولم یصغ لقلبہ إلی خاطرہ یدعوہ إلی غیرہ فإذا صار من الخلق إجنبیا ومن آفات نفسہ بریا والملاحظات نقیا ودام في السیر مع اللہ مناجاتہ وحق في کل لحظۃ إلی اللہ رجوعہ و صار محدثا من قبل الحق سبحانہ وتعالی بتعریف أسرار، وفیما یجري منہ تصاریف أقدارہ سمي عندنا ذلک عارفا وتسمی حالتہ ’’معرفۃ‘‘ فبمقدار أجنبیتہ من نفسہ تحصل معرفتہ بربہ عز و جل۔
            وأیضا قال:
            ’’المعرفۃ علی قسمین: عامۃ وخاصۃ۔ العامۃ ھي الإقرار بالوحدانیۃ، والخاصۃ وھي المرادۃ ھنا وھي المتوقفۃ علی تزکیۃ النفس من الأوصاف الذمیمۃ وتخلیتھا بالأوصاف الحمیدۃ۔ (ملتط من کفایۃ الاتقیاء)
علامۃ المعرفۃ:
            وھي حیاۃ القلب مع اللہ تعالی و أوحی اللہ تعالی إلی داﺅد علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام: ’’یا داﺅد، أتدري ما معرفتي؟‘‘ قال: ’’لا،‘‘قال اللہ تعالی: ’’حیاۃ القلب في مشاھدتي۔‘‘
أرکان المعرفۃ:
            قال ابن عطاء رحمہ اللہ تعالی:
            ’’المعرفۃ علی ثلثۃ أرکان الھیئۃ والحیاء والأنس۔‘‘
علامۃ العارف:
            ’’وقال ذو النون قدس سرہ:
            ’’علامۃ العارف ثلثۃ، لا یطفی نور معرفتہ نور ورعہ ولا یعتقد باطنا من العلم ینقض ظاھرا من الحکم ولا تحمل کثرۃ نعم اللہ علی شک أستار محارم اللہ۔‘‘
            وسئل أبو یزید رحمہ اللہ عن العارف، فقال: ’’من لا یری فی نومہ غیر اللہ تعالی ولا ۔۔۔ غیر اللہ تعالی ولا ۔۔۔ غیر اللہ تعالی۔‘‘(سلالم الفضلاء)
معرفۃ الذات ومعرفۃ الصفات:
            معرفۃ الذات ھي أن یعلم أن اللہ تعالی موجود واحد وفرد و ذات و شیئ وقام بنفسہ ولا یشبہ شیئا ولا یشبھہ شیئ۔ ومعرفۃ الصفات، فأن یعرف اللہ تعالی حیا، عالما،قدیرا ،سمیعا، بصیرا، مریدا، متکلما إلی غیر ذلک من الصفات۔
سر المعرفۃ:
            سر المعرفۃ و روحھا التوحید، وذلک بأن ینزہ حیاتہ و علمہ وقدرتہ و إرادتہ وسمعہ و بصرہ وکلامہ عن التشببیہ بصفات الخلق۔
معنی المعرفۃ الاستدلالیۃ:
            وھي صفات اللہ تعالی بالاستدلال و البرھان نحو قولہ تعالی: ’’ سَنُرِیۡہِمۡ  اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ  وَ فِیۡۤ   اَنۡفُسِہِمۡ’’(فصلت: ۵۳) وھي الدرجۃ للعلماء الراسخین في العلم وھو الاستدلال بالآیات علی حالتھا لأن منھم من یری إلا شاء فیراہ بالأشیاء فھذہ المعرفۃ علی التحقیق إنما تحصل لمن انکشف لہ شیئ۔۔۔من أمور الغیب حتی استدل علی اللہ بالآیات الظاھرۃ وبالآیات الغیبیۃ لأن اللہ تعالی خلق ظاھر العالم وباطنہ لیکونا دلیلین علیہ تعالی، فمن  اقتصر استدلالہ لظاھر العلم دون باطنہ علم یستدل بالدلیلین فالأنفس مثلا، فإن النفس ھي کلیۃ الذات ظاھرا وباطنا فمن استدل لظاھرھا دون باطنھا فما استدل بالدلیل جملۃ ۔۔۔۔۔۔۔استدلالہ بباطن النفس والدلیل إذا کان مخلوطا با۔۔۔۔۔۔فلیس بدلیل مطلقا مع أن الاستدلال بظاھر النفس سیحصل بالاتفاق فاستغن بھا عن ظاھر النفس فاجتھد في تھذیب الأخلاق لینکشف لک کل شیئ من الملکوت۔
المعرفۃ الشھودیۃ:
            وھي المعرفۃ التي تحصل بالمشاھدۃ القلبیۃ دلیلھا قولہ تعالی: ’’ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ  اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ  شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ’’ وھي درجۃ الصدیقین وھم أصحاب المشاھدات وھو استدلال۔۔۔ الآیات علی الآیات۔
قول المجدد الألف الثاني:
            قال قدس سرہ:
            ’’اعلم أن وجود الباري تعالی وتقدس وکذلک وحدانیتہ۔۔۔۔۔۔بنبوۃ مھمد رسول اللہﷺ ۔۔۔۔۔۔ بدیھي لایحتاج إلی فکر و دلیل علی تقدیر سلامۃ القوۃ المدرکۃ من الآفات الردیّۃ والأمراض المعنویۃ والنظر والفکر۔۔۔۔۔۔ وثبوت الآفۃ۔ وأما بعد النجاۃ من المرض القلبي وزوال الغشاوۃ البصریۃ فلا شیئ سوی البداھۃ۔‘‘ ثم أوضحہ بالأمثلۃ، ثم قال في آخر المکتوب: ’’فإن النفس الأمارۃ منکرۃ للأحکام الشرعیۃ بالذات وحاکمۃ بتناقضھا بالطبع فتحصیل الیقین بحقیقۃ ھذہ الأحکام الصادقۃ من طریق الدلیل مع وجود انکار وجود المستدل علیہ عسیر جدا، فکانت تزکیۃ النفس ضروریۃ لتعسر وصول الیقین اللازم الحصول بدونھا ’’ قَدۡ  اَفۡلَحَ  مَنۡ  زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾ وَ  قَدۡ خَابَ مَنۡ  دَسّٰىہَا﴿ؕ۱۰﴾ ’’ (ثم قال بعد سطرین)فالمقصود من السیر  والسلوک تزکیۃ النفس وتصفیۃ القلب ھو إزالۃ الآفات المعنویۃ والأمراض القلبیۃ المشار إلیھا بقولہ تعالی:’’ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ’’ حقیقۃ الإیمان فإن وجد الإیمان مع وجود ھذہ الآفات فإنما ھو بحسب الظاھر فقط، لأن وجدان النفس الأمارۃ بخلافہ وھي مصرۃ علی کفرھا۔‘‘
العارف أفضل من غیرہ:
            لما کانت معرفۃ اللہ تعالی علیۃ فائقۃ علی غیرھا کان المتصفون بھا وھم العارفون باللہ أفضل ممن لم یتصف بھا من أھل الفروع والأصول جمیعا وذلک لأن العلم بشرف المعلوم۔۔۔۔۔۔فالعلم باللہ وصفاتہ أشرف من العلم بکل من الفروع والأصول، لأن متعلقہ أشرف المعلومات وأکملھا، ولأن ثمارہ أفضل الثمرات، فإن معرفۃ کل صفۃ من صفاتہ ۔۔۔۔۔۔ عن تلک الحال بملابسۃ أخلاق سنیۃ ومجانبۃ أخلاق ردیۃ، فمن عرف صفۃ الرحمۃ أثمرت معرفتہ لھا صعۃ الرحمۃ ومن عرف شدۃ النقم أثمرت معرفتہ لھا شدۃ الخوف۔۔۔ الکف عن الإثم والقسوۃ ۔۔۔۔۔۔مع البکاء والأحزان۔
شریعۃ، طریقۃ، حقیقۃ:
            الشریعۃ:          ھي المأمورات التي أمر اللہ بھا والمنھیات التي نھی اللہ عنھا۔
            الطریقۃ:          ۔۔۔۔۔۔مع ذلک والعمل بہ۔
            الحقیقۃ:         ۔۔۔۔۔۔لبواطن الأمور و ۔۔۔ الفعل من اللہ تعالی۔
وقیل:’’ الشریعۃ ما رود بہ التکلیف و الطریقۃ ھي الأخذ بالأحوط من سائر الأعمال ولا یأخذ الرخصۃ، وذلک کالورع والحقیقۃ ما حصل بہ التکلیف۔‘‘ کما قالہ الشیخ علي بن الھیتي رحمہ اللہ تعالی، وأیضا قال رحمہ اللہ: ’’الشریعۃ ۔۔۔بالحقیقۃ ، والحقیقۃ بالشریعۃ والشریعۃ وجود الأفعال۔۔۔۔۔۔۔إلی العلم بواسطۃ الرسل والحقیقۃ شھود الاتصال باللہ تعالی والاستسلام لغلبات الحکم بتقدیر لہ لا بواسطۃ۔‘‘
            وأیضا قیل: ’’الشریعۃ طلب السالک إلی اللہ تعالی دین الإسلام ودوامہ علی امتثال أمر اللہ تعالی واجتناب نھیہ وھو المسمی بالاستقامۃ والطریقۃ اعتماد السالک علی أوثق الأمور کالورع۔‘‘ وأیضا قیل: ’’ الطریقۃ اعتماد السالک علی ما لہ شأنہ کریاضۃ أی تذلیل النفس من قلۃ أکل و شرب و نوم ومن تباعد عن ۔۔۔ المباحات والحقیقۃ فھم حقائق الأشیاء کشھود الاسم والصفات وشھود الذات وفھم أسرار القرآن وأسرار المنع والجواز و فھم العلوم الغیبیۃ التي لا تکتسب من معلم۔‘‘ قیل: ’’أن الحقیقۃ ھي وصول السالک إلی المقصود وھو معرفۃ اللہ سبحانہ وتعالی، ومشاھدۃ نور التجلي‘‘۔ وأیضا قال القشیري قدس سرہ في الفرق بین الشریعۃ والحقیقۃ من أن الشریعۃ التزام العبودیۃ والحقیقۃ مشاھدۃ ربوبیتہ أی رویتہ بالقلب۔
            اعلم أن العلماء والصوفیۃ مثلھا بالأمثلۃ المختلفۃ، وأنا أذکربعضھا۔ فمثلوا الشریعۃ بالسفینۃ فی أنھا سبب في الأصول إلی المقصود والطریقۃ بالبحر في أنھا محل للمقصد والحقیقۃ بالدر فی الانتفاع۔۔۔ فلا یصل الشخص إلی الحقیقۃ التي ھي الدر إلا بعد وصولہ إلی البحر الذي ھو محلہ ولایصل إلیہ إلا بالسفینۃ، ومثل بعضھم الثلاثۃ۔۔۔ فالشریعۃ کا۔۔۔ والطریقۃ کاللب؟ والحقیقۃ کالدھن فلا یتوصل إلی الدھن إلا بعد الوصول إلی الللب؟ ولا یتوصل إلیہ إلا بعد الوصول إلی ۔۔۔(ملتقط من کفایۃ الأتقیاء ومنھاج الأصفیاء)
            قال المجدد للألف الثاني قدس سرہ في بیان الفرق بینھا:
            ’’الباطن منھم للظاھر ومکمل لہ۔۔۔۔۔۔ مثلہ عدم التکلم بالکذب شریعۃ في نفي الکذب عن الظاھر طریقۃ وحقیقۃ فإن ذلک النفي لو کان بالتعمل والتکلف، فطریقۃ، وإلا فحقیقۃ۔ فکان الباطن الذي ھو الطریقۃ والحقیقۃ متمما ومکملا في الحقیقۃ للظاھر الذي ھو الشریعۃ۔
للشریعۃ ثلاثۃ أجزاء:
            وأیضا قال قدس سرہ:
            ’’إن للشریعۃ ثلثۃ أجزاء: العلم والعمل والإخلاص۔ ومالم یتحقق کل من ھذہ الثلثۃ، لا یتحقق الشریعۃ ومتی تححت الشریعۃ فقد تحقق رضا الحق سبحانہ وتعالی، الذي ھو فوق جمیع السماوات الدنیویۃ والأخرویۃ و صون من اللہ الأکبر، ولم یبق مطلب یقع ۔۔۔ الاحتیاج إلی ما ۔۔۔
الشریعۃ:          والطریقۃ والحقیقۃ امتازت بھما الصوفیۃ۔۔۔ للشریعۃ في تکمیل جزئھا الثالث الذي ھو الإخلاص فالمقصود من تحصیل کل منھما تکمیل الشریعۃ لا أمر آخر وراء الشریعۃ۔۔۔۔۔۔ والعلوم والمعارف التي تحصل للصوفیۃ في أثناء الطریق لیست من الحق صدر بل ھي أوھام و خیالات تری بھا۔۔۔۔۔۔ الطریقۃ۔ فینبغي أن یتجاوز جمیع ذلک و أن یصل إلی مقام الرضا الذي ھو غایۃ مقامات السلوک والجذبۃ ویوصل إلی دولۃ الإخلاص ومقام الرضا۔۔۔۔۔۔ بد من التجلیات الثلاثۃ ومشاھدات العارفین۔ نعم أن حصول مقام الإخلاص والوصول إلی مرتبۃ الرضا منوط بطیی منزل الأحوال و ۔۔۔ومربوط بتحقیق ھذہ العلوم والمعارف فتکون ھذہ الأشیاء معدات للمطلوب ومقدمات للمقصود۔
متابعۃ السنۃ السنیۃ:



مقاصد من طریق الصوفیۃ:
            قال أیضا قدس سرہ:
            ’’المقصود منھا حصول الیقین والاطمینان في المعتقدات بحیث لا تزول بتشکیک مشکک ولا تبطل بإیراد شبھۃ۔
            ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔تطمئن القلوب وحصول السیر والسھولۃ في إتیان الأعمال۔۔۔ والعناد والتعنت الفاحشۃ عن النفس الأمارۃ۔‘‘
            ولیس المقصود من سلوک طریق الصوفیۃ أیضا مشاھدۃ الصور والأشکال الغیبیۃ ومعاینۃ الألوان والأنوار اللا کیفیۃ، فإن ذلک داخل في اللھو واللعب۔
لا بد لحصول الإخلاص طریق الصوفیۃ:
            قال قدس سرہ:
            ’’لا بد للإنسان من ثلثۃ أشیاء فی۔۔۔ النجاۃ الأبدیۃ: العلم، والعمل والٍإخلاص۔ والعلم علی قسمین: قسم المقصود منہ العمل، وقد تکثر ببیانہ علم الفقہ۔ وقسم المقصود منہ الیقین القلبي وذکر ھذہ القسم علم الکلام بالتفصیل علی ۔۔۔ آراء أھل السنۃ والجماعۃ ھم الفرقۃ الناجیۃ‘‘، ثم قال: ’’إن العلم والعمل مستفادان من الشریعۃ، وتحصیل الإخلاص الذي ھو ۔۔۔ الروح للعلم والعمل مربوط بسلوک طریق الصوفیۃ، ما لم یقطع السالک مسافۃ السیر إلی اللکہ لم یتحقق لہ السیر في اللہ، فھو ۔۔۔ من حقیقۃ الإخلاص۔۔۔ من کمالات المخلص اھل الإخلاص۔۔۔ یتحقق الإخلاص في الأعمال لعامۃ المومنین بالتعمل والتکلف ولو في الحبلۃ، ولکن الإخلاص الذي نحن في صدد بیانہ، ھو الإخلاص في جمیع الأفعال والأقوال والحرکات والسکنات من غیر تعمل و تکلیف وحصول ھذہ الإخلاص منوط بانتفاء الآلھۃ الآفاقیۃ والأنفسیۃ الذي (؟) ھو مربوط بالفناء والبقاء والوصول بالولایۃ الخاصۃ۔ والإخلاص الذي یحتاج فیہ إلی التعمل والتکلف لا یکون لہ دوام الأبد من سقوط التکلف في حصول الدوام الذي ھو مرتبۃ حق الیقین وأولیاء اللہ تعالی کلما یفعلونہ للہ جل وعلا لا لحظوظھم نفوسھم۔‘‘(انظر المکتوب: ۵۹)
جامعیۃ الإنسان سبب لبعدہ:
            أیھا المرید الصادق، جامعیۃ الإنسان سبب لبعدہ۔ قال الشیخ المجدد قدس سرہ:
            ’’اعلم أن جامعیۃ الإنسان کما أنھا سبب لقربہ وتکریمہ وتفضیلہ، کذلک ھي سبب لبعدہ وتجھیلہ وتضلیلہ۔ أما قربہ فبواسطۃ۔۔۔ وقابلیتہ بظھور جمیع الأسماء والصفات بل للتجلیات الذاتیۃ وما ورد من الحدیث القدسي ’’لا یسنی أرضي و لا سمائي، ولکن یسعني قلب عبدي المومن‘‘۔ رمز من ھذا البیان، وأما ۔۔۔ فبسبب احتیاجہ إلی کل شیئ من جزئیات العالم فإن لہ احتیاجا إلی کل ما في العالم۔ ’’خلق لکم ما في الأرض جمیعا۔‘‘ فبواسطۃ ھذا الاحتیاج لہ تعلق بجمیع الأشیاء و ھذا التعلق ھو الذي صار سببا لبعدہ و ضلالہ۔ فلا بد لک أن تتخذ شیخا مرشدا إلی الحق۔۔۔قریبا إلی اللہ تعالی و أصرفک عن بعدہ۔
حاصل الطرق:
            اعلموا یا أحبتي، أن طرق المشائخ من السادات المقربین والأولیاء المعتبرین مقیدۃ بکتاب اللہ وسنۃ رسولہﷺ لا تخرج عنھا۔ قال أبو القاسم النصر آبادي رحمہ اللہ تعالی:
            ’’أصل التصوف ملازمۃ الکتاب والسنۃ وترک الأھواء والبدع وتعظیم حرمات المشائخ والملازمۃ علی الأوراد وترک ارتکاب الرخص والتاویلات۔‘‘
            وقال أبو الحسن الثوري قدس سرہ:
            ’’من  رأیتہ یدعي مع اللہ حالۃ تخرج من حد العلم الشرعي، فلا تقرَبنَّ منہ۔‘‘
 وأیضا قال الغوث الصمداني والقطب الرباني السید عبدالقادر الجیلاني قدس سرہ:
اتباع الشرع موجب لسعادۃ الدارین، احذر أن یخرج من دائرتہ ، إیاک أن تفارق اجتماع أھلہ۔
وما لا بد للمشائخ:
            قال الإمام عبدالوھاب الشعراني رحمۃ اللہ تعالی في ۔۔۔ الطبقات الکبری:
            ’’قد أجمع أشیاخ الطریقۃ علی أخذ لا یجوز۔۔۔ لتربیۃ المرید إلا بعد تبحرہ في الشریعۃ، فعلم (؟) أن کل من لم یسلک الطریق علی ھذہ القواعد، لا یقدر علی التخلق بشیئ من أخلاق ھذہ الکتاب، وقد قالوا: من ضیّع الأصول حرم الوصول إلیہ ۔’’
أیّ کتاب مفید في الطریقۃ:
            ینبغي للمشائخ أن یطالعوا الکتب المشتملۃ علی ۔۔۔ سید المرسلینﷺ وسیرہ وسننہ۔۔۔ إلی الآخرۃ وعلی آداب السالکین من الزھد و غیرہ وریاضۃ النفوس وتھذیب الأخلاق بتطھیر القلوب وتزکیۃ النفوس والجوارح۔
القرب الإلھي أسبابہ و موانعہ:
            اعلم أن القرب الإلھي لایکون کما یکون للجسم بالجسم ولا کما للعرض بالجسم بل ھو لا مثلي ولا کیفي۔ قال بعض العلماء: ‘‘المراد من القرب ارتفاع الحجب بین العبد وربہ وقال القاضي ثناء اللہ الفاني فتي رحمہ اللہ تعالی:
            ’’اعلم أن للہ تعالی قربا بالعباد کما یدل علیہ قول تعالی:’’ وَ نَحۡنُ  اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ  مِنۡ  حَبۡلِ  الۡوَرِیۡدِ’’ ۔ و أیضا :‘’ وَ ہُوَ مَعَکُمۡ  اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ ‘‘ وقربا بخواص البشر والملائکۃ، قال اللہ تعالی:’’ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ ‘‘۔ وفي الحدیث ’’لا یزال عبدي یتقرب إلي بالنوافل حتی أحببتہ‘‘۔ وھذا القرب الثاني معبر عن الولاج۔ و أول مراتب ھذا القرب لیحصل بنفس الإیمان، قال اللہ تعالی: ‘‘ۚ وَ اللّٰہُ   وَلِیُّ   الۡمُتَّقِیۡنَ ‘‘۔ ولکن المعتبر والمعتمد ھو القرب المعبر من الولایۃ، وھو مقام المحبوبیۃ الذي ذکر في الحدیث القدسي’’لا یزال عبدي یتقرب إلي بالنوافل حتی أحببتہ۔‘‘ ثم اعلم أن لھذہ القرب مقامات و مراتب لا تعد ولا تحصی، وکما أن الذات الإلھیۃ لا مثلي ولا کیفي فی القرآن المجید’’ؕ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ  شَیۡءٌ ‘‘ أي لا في الذات ولا في الصفات ولا في شیئ من الاعتبارات کذلک ھذان القربان الذان۔۔۔۔۔۔ بین الخالق والمخلوق لا مثلیان ولا کیفیان لا مشابھۃ لھا بالقرب الزماني والمکاني وغیرھما لا في الذات ولا في الصفات۔ فإن قیل: ‘‘الولایۃ عبارۃ عن التسبۃ اللاکیفي التي تکون بین الرب و عبدہ فلم تسمی بالقرب؟’’
قلت:
            ’’جوابہ مذکور بالتفصیل في إرشاد الطالبین، وحاصلہ ’’ أن النسبۃ اللاکیفي المعتبرۃ بالولایۃ قد تتمثل في النظر الکشفي بصورۃ القرب الجسماني وبقدر السالک۔۔۔ السیر  إلی الذات أو إلی صفۃ من صفاتہ ولھذہ تعتبر تلک النسبۃ المذکورۃ بالقرب ویقال لھذا الترقي(؟) السیر إلی اللہ والسیر في اللہ والسیر من اللہ باللہ۔
أقسام القرب:
            حاصل ما قال الشیخ المجدد قدس سرہ:
            ‘‘القرب علی قسمین: أحدھما قرب النبوۃ وثانیھما قرب الولایۃ۔ الأول عبارۃ عن القرب الإلھي لا شائبۃ فیہ من الظلیۃ الذي عروجہ إلی الحق ونزولہ إلی الخلق وھذا القرب بالإصالۃ خاص بالأنبیاء علیھم الصلوات والتسلیمات۔
            وقرب الولایۃ لا یتصور بلا شوب من الظلیۃ ولا یحصل بلا حیلولۃ العجب۔ واعلم أن القرب المعبر عنہ بالولایۃ علی ثلاثۃ أقسام: أحدھا القرب الظلي المتعلق بظلال الأسماء والصفات المعبر عنہ بالولایۃ الصغری وولایۃ الأولیاء وثانیھا القرب الذي یعبر عنہ بولایۃ الأنبیاء۔۔۔ عن الظلیۃ ولکن حجب الأسماء والصفات قائمۃ۔(؟) و ثالثھا القرب الزي یعبر عنہ بولایۃ ۔۔۔۔۔۔ علی نبینا وعلیھم الصلوات والتسلیمات۔۔۔۔۔ و إن کانت ارتفعت فیہ حجب الأسماء والصفات وزالت عنہ۔۔۔ حجب الشیون والاعتبارات لازمۃ لہ والقرب الذي لیس فیہ شیئ من الظلیۃ ولا حجب الأسماء والصفات ولا الشیون والاعتبارات ھو قرب النبوۃ۔۔ أن النبوۃ أفضل من الولایۃ وقرب النبوۃ أصلي وذاتي ومن یطلع علی حقیقتھما حکم بالعکس۔(؟)۔۔۔ وجزم بالقلب۔
علۃ القرب وأسبابہ:
            اعلم أن العلۃ الموجبۃ للقرب الإلھي ھو الجذب الإلھي وھذا الجذب إن کان بلا توسط أمر، یقال لہ ’’الاجتھاد‘‘ والأکثر یکون بتوسط أمر والمتوسط شیئان بحکم الاستقراء، أحدھما العبادۃ و ثانیھما صحبۃ الشیخ الکامل المکمل، فالجذب الإلھي یکون بتوسط العبادۃ یقال لہ ’’عزۃ العبادۃ‘‘ والذي یکون بتوسط الصحبۃ یقال لہ ‘‘تأثیر الشیخ‘‘ وھذا الکلام في العلۃ الفاعلیۃ والعلۃ القابلیۃ ھي الاستعداد الذي أودعہ اللہ تعالی في الإنسان، قال اللہ تعالی مخبرا عنہ:
            "فِطۡرَتَ اللّٰہِ  الَّتِیۡ فَطَرَ  النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ"
            وجاء في الحدیث:’’وما من مولود إلا وقد یولد علی الفطرۃ ثم أبواہ یھودانہ أو ینصرانہ أو یمجسانہ‘‘۔ أیضا قال رسول اللہﷺ: ’’الناس معادن کمعادن الذھب والفضۃ۔‘‘
موانع القرب:
            موانع القرب ثلثۃ: رذائل النفس و ۔۔۔۔۔۔ العناصر وغفلۃ لطائف الأمر والعبادۃ وصحبۃ الشیخ الکامل المکمل۔ کل منھا کما علۃ لحصول القرب کذلک ھو علۃ لدفع(؟) الموانع۔
الولي:
            قد علم مما ذکرت من القرب و أقسامہ من یکون ولیا، ھو من یتصف بالقرب المخصوص الذي یعبر عنہ بالولایۃ و أیضا علمت أن للولایۃ درجات بعضھا فوق بعض، وبھذا الاعتبار بعض الأولیاء یفضؒ بعضا، الأقرب فھو الأفضل۔ وحاصل ما قال في الرسالۃ المکیۃ:‘‘ إن ھذہ الأمۃ زادھا اللہ تعالی شرفا لا یزال الولایۃ ثابتۃ فیھا إلی یوم القیامۃ۔ قال رسول اللہﷺ: لا یزال طائفۃ من أمتي ظاھرین مع الحق لا یضرھم خذلان من خذلھم ثم قال بعض الأکابر: الولایۃ ولایتان: ولایۃ تخرج من العداوۃ وھي لعامۃ المومنین فیقال ‘‘المومن ولي اللہ‘‘، یرید الولایۃ التي تخرج من العداوۃ۔ قال اللہ تعالی:’’ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ’’(البقرۃ: ۲۵۷)
            والعداوۃ ھي عداوۃ الکفر والمومنون ھم الذین عبادتھم متواترۃ و طاعتھم متوالیۃ من غیر ۔۔۔ ولا قصورَ۔ و أما تعریف الولي، فقد سئل النبيﷺ:’’ من أولیاء اللہ تعالی؟‘‘ قال:’’ الذین إذا رﺅوا  ذکر  اللہ’۔ رواہ أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء وفی الخبر لإلھي، قال اللہ تعالی:’’ إن أولیائي من عبادي وأحبائی من لقي۔(؟) الذین یذکرون بذکري واذکرھم بذکرھم۔‘‘ وقال في حقائق السلمی، قال عیسی علیہ السلام:’’ جالسوا من یذکر اللہ رویۃ ویرغبکم في الأٓخرۃ،‘‘ وھذہ الولایۃ ولایۃ اختصاص و اصطفاء۔
السلوک والوصال والاتصال:
            قال في الرسالۃ المکیۃ:
            ’’فإن قیل: مامعنی السلوک والوصال؟ فیقال: السلوک عبارۃ عن تھذیب الأخلاق۔۔۔ للوصول۔ معنی الاتصال بالحق الانقطاع عما دون الحق و أدنی الوصال مشاھدۃ العبد ربہ تعالی بعین القلب و إن کان من بعید، فإذا رفع الحجاب عن قلبہ وتجلی لہ، یقال إنہ الأٓن واصل۔ ثم لا یزل یزداد الوصال علی قدر دوام المشاھدات إلی أن یحصل الأنس بہ تعالی۔۔۔ ذلک من المقامات العالیۃ۔ ولیس المراد بالاتصال اتصال الذات بالذات، لأن ذلک إنما یکون بین الجسمین وھذا التوھم في حق اللہ ۔۔۔۔۔۔ انقطاعھم عن غیر الحق اتصالھم بالحق۔‘‘ وقال في موضع آخر:’’ اعلم أن قرب الوصال من اللہ تعالی إنما یرجی بالعلم الراجح والعمل الصالح وذلک في کتاب اللہ تعالی، فإن القرآن ھو الإمام في الاعتقاد والإیمان والأعمال والأحوال والإیقان والتوحید والمعرفۃ۔‘‘ و أیضا قال:‘‘ اعلم أن معنی المثال ھو الرﺅیۃ المشاھدۃ سیرا القلت في الدنیا و بعین الرأس في الآخرۃ إن شاء اللہ تعالی، ولیس معنی الوصال اتصال الذات بالذات تعالی اللہ عن ذلک۔‘‘
أصول الدین:
            یجب علی السالک أن یعرف أصول الدین ویقف علیھا لیصح معرفتہ وعبودیتہ وعبادتہ(؟) و أصول الدین: الإسلام والاعتقاد والإیمان والإیقان والمعرفۃ والتوحید۔
الاعتقاد الصحیح:
            ھو اتخاذ صورۃ العلم الراجح في القلب بوجود المغیبات، فإن قیل: ما معنی حقیقۃ الاعتقاد؟
حقیقۃ الاعتقاد:
            نور في قلبہ یدفع بہ ما یعرضہ من الشکوک والریب۔
صحۃ الاعتقاد:
            فإن قیل: ما معنی صحۃ الاعتقاد؟ یقال: ھو الخالي عن التعطیل(؟) والإلحاد والتشبیہ والتجسیم والتکلیف والتنقیص والحلول والاتحاد والإباحۃ، وھو الاعتقاد الذي علیہ کان الصحابۃ والتابعون و تابعھم الذین إجماعھم حجۃ في أصول الدین۔
العلم الراجح:
            فإن قیل: ما العلم الراجح؟ یقال: الراجح ھو الاعتقاد الجازم المطابق۔ فإن قیل: ما حقیقۃ ھذا العلم؟
حقیقۃ العلم:
            یقال: نور إذا نزل في القلب ینفذ شعاعہ إلی ۔۔۔ المعلوم ویتعلق کما یتعلق نور العین۔۔۔
مأخذہ:
            فإن قیل: ما مأخذ العلم؟ یقال: مأخذہ نصرۃ الإلہ علی قلب العبد في مشکاۃ النبوۃ یجذبہ إلی اللہ تعالی أو إلی امر اللہ تعالی أو إلی حکم اللہ تعالی، وھو علی مراتب:
(۱)علم الیقین: وھو علی ما حصل عن نظر و استدلال۔
(۲)عین الیقین: وھو ما حصل عن مشاھدۃ و عیان۔
(۳)حق الیقین: وھو ما حصل عن العیان مع المباشرۃ، الأول کمن علم بالعادۃ أن في البحر ماء، والثاني، کمن مشیٰ و وقف علی ساحلہ و عاینہ۔ والثالث، کمن خاض فیہ و اغتسل و شرب منہ۔
العلم اللدني:
            ھو معرفۃ ذات اللہ وصفاتہ علما یقینا عن مشاھدۃ و ذوق ببصائر القلو۔ فإن قیل: بم ینال العلم الصحیح؟ یقال: ھو ثمرۃ الإیمان الصحیح، فما لم ینزل زائد الإیمان في منازل قلب لا یجلی علم الیقین في ساحۃ صدرہ۔
التوحید:
            التوحید في اللغۃ: جعل الأشیاء شیئا واحدا۔ وفي عبارۃ العلماء اعتقاد و حدانیۃ اللہ، وعند الصوفیۃ: معرفۃ وحدانیۃ اللہ تعالی۔ فإن قیل: ما أصل التوحید؟ یقال: توحید إثبات ما لم یزل و إسقاط ما لم یکن۔ وقال بعضھم: التوحید تمییز الحدوث عن القدم والإعراض عن الحدوث والإقبال علی القدم حتی لا یشھد نفسہ فضلا عن غیرہ، لأنہ لو شھد نفسہ في حال توحید الحق سبحانہ وتعالی لکان شیئا لا موحدا۔
حقیقتہ:
            قیل: حقیقۃ التوحید نور بہ یشاھد۔۔۔ وجود من لم یزل کائنا وعدم ما لم یکن و ،،، التوحید وراء التوحید بعبارۃ العلم، فإن العلم لا یمحو الشرک ولا یمحو الغیر إذ لیس الخبر کالمعاینۃ ومن لقي ربہ تعالی موحدۃ عادت سیئاتہ حسناتہ ومن وحد اللہ تعالی صدقا من قلبہ حرمہ اللہ علی النار کما تواترت بہ الأخبار۔
الیقین:
            قیل: ھو عبارۃ عن ظھور نور الحقیقۃ في الموقن في حال کشف أستار البشریۃ بشاھد الوجد۔۔۔ لا بدلالۃ العقل والنقل۔ فإن قیل: نور الإیمان والیقین واحد أو ھما نوران؟ یقال: الإیمان نور من وراء الحاسۃ، قال اللہ تعالی:’’ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ ‘‘ والیقین نور عند کشف الحجاب وبالحقیقۃ ھما نور واحد غیر أنہ إذا کان من وراء الحجاب، یقال لہ:’’ نور الإیمان‘‘، وإذا باشر ذلک النور قلب المومن عند رفع الحجاب صار یقینا مثل الإیمان کنسبۃ الفجر إلی الشمس۔۔۔۔۔۔ جزء من سواد اللیل ولم تطلع الشمس بعد۔ ومثال الیقین طلوع الشمس حیث زالت الظلمۃ بالکلیۃ۔
العبادۃ والعبودیۃ والعبودۃ:
            قیل: العبادۃ علی ثلث مراتب: (۱) منھم من یعبد اللہ للثواب والعقاب، وھذا ھو العبادۃ المشھورۃ۔ (۲) ومنھم من یعبدہ لینال بعبادتہ شرف الانتساب کما قال قائلھم: لاتدعني الأب یا عبدنا، فإنہ أشرف أسماء و ھذا یسمیہ بعضھم عبودیۃ، (۳) ومنھم من یعبدہ إجلالا و ھیبۃ و حیاءً منہ و محبۃً لہ تعالی وھذہ ھي الرتبۃ العالیۃ یسمی ھذہ في اصطلاح بعضھم عبودۃ، فالعبودۃ أعلی من العبودیۃ والعبودیۃ أعلی من العبادۃ، فالعبادۃ محلھا البدن، فھي إقامۃ الأمر والعبودیۃ محلھا الروح وھي الرضا بالحکم والوبودۃ محلھا السر، وھي عبادۃ في الأحوال، فالعبادۃ أصل والعبودیۃ فرع و لا فرع بدون الأصل۔ والعبادۃ والعبودیۃ مجاھدۃ والعبودیۃ ھدایۃ، کما قال تعالی في قصۃ إبراہیم علیہ السلام:’’ وَ قَالَ  اِنِّیۡ ذَاہِبٌ  اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۹۹﴾ ‘‘(الصٰفّٰت: ۹۹)
الحق والحقیقۃ:
            أما الحق في اللغۃ فھو الکائن الثابت، فالحق الکائن الثابت الموجود الدائم النافع الضارّ الذي  وسعت رحمتہ کل شیئ وھو اللہ تعالی فاستعمال الحق للہ تعالی حقیقۃ و لغیرہ مجاز وجودہ تعالی ذاتي ووجود غیرہ بإیجاد اللہ تعالی إیاہ وکان الوجود الثابت لہ تعالی خاصۃ اسما خاصا لذاتہ تعالی یدل علی ذلک قول اللہ تعالی:’’ فَمَا ذَا بَعۡدَ الۡحَقِّ  اِلَّا الضَّلٰلُ ۚ ‘‘(یونس: ۳۲)
و أما الحقیقۃ في اللغۃ فھي الدرایۃ أعني العلم في اصطلاح أھل الأصول، المراد بحقیقۃ اللفظ ما ووضع لہ اللفظ۔ للتفصیل مقام آخر۔ وأما الحق والحقیقۃ في اصطلاح مشائخ الصوفیۃ، فالحق ھو الذات والحقیقۃ ھي الصفات، فالحق اسم الذات والحقیقۃ اسم الصفات، ثم أنھم إن أطلقوا ذلک، فإنما أرادوا بہ ذات اللہ تعالی وصفاتہ عز و جل خاصۃ، و ذلک لأن المرید إذا ترک الدنیا وتجاوز عن حدود النفس و الھوی و دخل في عالم الإحسان، یقولون: دخل في عالم الحقیقۃ و وصل إلی مقام الحقائق و  إن کان بعد في عالم الصفات و الأسماء۔۔۔ وصل إلی نور الذات، یقولون: وصل إلی الحق و قلما یستعملون ذلک في ذوات أخری و في صفاتھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھو التوحید۔(ملتقط من الرسالۃ المکیۃ)
المبتدي۔المتوسط۔المنتھي:
            المفھوم من أقوال العلماء، أن المبتدي من یکون في أول الدرجات۔۔۔۔۔ في التحصیل ویکون قاصدا لأٓخرھا(؟؟؟) والمتوسط من یکون في وسطھا(؟؟؟) والمنتھي من یکون في آخرہ(؟؟؟) وفي الطریقۃ: المبتدي من لا یکون من أرباب القلوب، وأرباب القلوب متوسطون بین المبتدیین والمنتھیین، والمنتھي ھو الفاني في اللہ والباقي باللہ، وھو الواصل الکامل۔ و للانتھاء درجات بعضھا فوق بعض ولأصول مراتب لا یمکن قطعھا۔۔۔۔۔۔(المکتوب: ۲۸۵)
الطرائق علی قدر أشخاص السالکین:
            و قال أیضا رحمہ اللہ تعالی:
            ’’إن کل فرد من أفراد السالکین إلی الحق، لہ طریق خاص یقع سلوکہ منہ لا من غیرہ إذ السلوک إما بتزکیۃ النفس بقطع۔۔۔ وأما بتصفیۃ الروح عن الکدورات ولا شک أن لکل نفس و روح مظھریۃ خاصۃ، فسلوک زید ؟ مثلا إما من نفسہ أو روحہ؟ لا من نفس عمرو ولا من روحہ، وکذا العمرو وھلم جرا۔ فلزم أن تکون أفراد الطرائق علی قدر أشخاص السالکین و موضع تلک الطرائق باعتبار نوعیھا، ھو النبيﷺ حیث علق فلاح النفس ۔۔۔ في ’’ قَدۡ  اَفۡلَحَ  مَنۡ  زَکّٰىہَا ‘‘مشیرا إلی الثاني  و نقل رحمہ اللہ تعالی عن سیدي عبدالغني النابلسي قدس سرہ:
            ’’أن حصر أقسام الإحسان و أنواعہ غیر ممکن، لأن لکل سالک حقیقۃ سلوک خاص و شرب معین و منھاج مستقر و إن کان الجمیع لا یخرجون عن ھذا الشرح المحمدي و سبب ذلک کثرۃ التجلیات الإلھیات بحیث لا تکاد تدخل تحت جنس و لا نوع یعرف ھذا أصحاب الذوق و الشھود و نقل عن الشیخ مصطفیٰ البکري قدس سرہ:’’ کل عبد لہ سیر یختص بہ و اسم بہ یتلقی کل۔۔۔ و من السعۃ الإلھیۃ عدم تجلي الحق لعبد من وجہ واحد مرتین(؟) أو لعبدین یجلی إلا لحکمۃ۔‘‘ و قال: ۔۔۔ الأستاذ في بعض مکاتیبہ:’’ و أما ما بدأ بین أرباب الطرق من التفاوت بحسب المشارب۔۔۔ و إلا فللعارفین اتحاد معنوي۔
            فلا بد لک أن تتخذ شیخا مرشدا إلی الحق۔۔۔ قریبا إلی اللہ تعالی و أصرفک عن بعدہ۔
شرائط المشیخۃ:
            قال الشاہ ولي اللہ المحدث الدہلوي قدس سرہ:
            ’’شرائط من یأخذ البیعۃ أمور، و ذکر أمورا خمسۃ، أحدھا علم الکتاب والسنۃ ولا أرید المرتبۃ القصوی، بل یکفي من علم الکتاب أن یکون قد ضبط تفسیر المدارک أو الجلالین أو غیرھا، و حققہ علی عالم۔۔۔ و تفسیر الغریب و أسباب النزول و الإعراب والقصص و ما یتصل بذلک۔
            و من السنۃ أن یکون قد ضبط و حقق مثل کتاب المصابیح و عرف معانیہ و شرح غریبہ و إعراب مشکلہ و تأویل۔۔۔ علی أٓراء الفقھاء (ثم قال:) إنما شرعنا العلم لأن الفرض من البیعۃ أمرہ بالمعروف و نھیہ عن المنکر۔۔۔ إلی تحصیل السکینۃ الباطنۃ و إزالۃ الرذائل و اکتساب الحمائد ثم امتثال المسترشد في کل ذلک، فمن لم یکن عالما کیف یتصور ھذا۔ (ثم قال:) ۔۔۔ اتفق کلمۃ المشائخ علی أن لا یتکلم علی الناس إلا من کتب الحدیث و قرأ القرآن۔۔۔ إلا أن یکون رجل صحب العلماء الأتقیاء دھرا طویلا و تأدب بھم و کان متفحصا عن الحلال و الحرام۔۔۔ عند کتاب اللہ و سنۃ رسولہ فعسی أن یکفیہ ذلک واللہ أعلم۔
والشرط الثالث:
            أن یکون زاھدا في الدنیا راغبا في الآخرۃ مواظبا علی الطاعات الموکدۃ والأذکار المأثورۃ في صحاح الأحادیث مواظبا علی تعلق القلب باللہ سبحانہ و کان لہ ۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ مکلۃ راسخۃ۔
والشرط الرابع:
            أن یکون أمرا بالمعروف و ناھیا عن المنکر۔۔۔ ۔۔۔۔ ذا مرؤۃ و عقل تام لیعتمد علیہ في کل ما یأمر بہ و ینھی عنہ۔ قال اللہ تعالی:
            ’’‘’‘
والشرط الخامس:
            أن یکون صحب المشائخ و تأدب بھم دھرا طویلا و أخذ منھم النور الباطن والسکینۃ و ۔۔۔ لأن سنۃ اللہ جرت بأن الرجل لا ۔۔۔۔۔۔کما أن الرجل لا یتعلم إلا بصحبہ العلماء وعلی ھذا القیاس غیر ذلک من الصناعات۔
تنبیہ:

            اعلموا أیتھا الإخوۃ، إن کنتم طالبین للتفاصیل المتعلقۃ بأقسام البیعۃ۔۔۔ وطریقھا، فانظروا ’’القول الجمیل‘‘ للشاہ ولي اللہ المحدث۔

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان  تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے ساتھ زیادتی آزاد ملک میں نہایت شرمناک بات ہے از قلم: محمد احسان الحق جامعی...