Tuesday, December 22, 2015

huzur sallalahu alaihe wa sallam ke aaba wo ajdaad ki khandani sharafat.


حضور ﷺ کے آباء واجداد کی خاندانی وجاہت وشرافت

 آپ کریم ابن کریم یا رسول اللہ!!!

جس طرح اللہ تعالی  نے حضور پرنور سرکار دوعالم نور مجسم صلی اللہ علیہ کو سارے عالم میں ممتاز بنایا ہے اسی طرح  حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ تک  ،اور حضرت حوا سے لیکر حضرت آمنہ رضی اللہ عنہما تک آپ کے تمام آبا واجداد کوہر زمانے اور ہر دور میں امتیازی شان عطا فرمایا۔آپ کا خاندان حکمت،شجاعت،سیادت،قیادت اور دیگر صفات حسنہ میں اپنے زمانے میں بے مثل رہے ہیں۔ اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجتماع واتفاق ہے  کہ  حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ تک   اور حضرت حوا سے لیکر حضرت آمنہ تک ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے بھی آبا واجداد ہیں تمام کے تمام مؤمن وموحد ہیں  ۔ان میں سے کوئی بھی مشرک یا کافر نہیں ہیں۔اور  یہ قرآنی آیات اور احادیث کریمہ سے ثابت ہے ۔ ہم ذیل میں پہلے بطور استشہادچند آیات و  احادیث پیش کر رہے ہیں:
 اللہ رب العزت   کا فرمان ہے : “وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ.”(الْبَقَرَة :221)''اور بے شک مسلمان غلام، مشرک سے اچھا ہے ''۔یہ مسلم حقیقت ہے کہ مسلمان چاہےحسب و نسب کے اعتبار سے کتنا ہی کمزورکیوں نہ ہو لیکن وہ ہر طرح کے مشرک سے بدر جہا بہتر اور افضل ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے”بعثت من خير قرون بنی آدم قرنا فقرنا، حتی کنت من القرن الذی کنت فیہ"(صحيح بخاری،کتاب المناقب، باب صفۃ النبی صلی الله عليہ وسلم، حدیث : 3557)''مجھے ہر زمانےاورہر طبقے میں تمام بنی آدم کے بہتر لوگوںمیں سے بھیجا گیا ،یہاں تک کہ اس قرن میں ہوں جس میں پیدا ہوا"۔جب ہم اس حدیث پاک اور مذکورہ آیت کریمہ پر جب غور کرتے ہیں تویہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آبا واجداد مؤمن و موحد تھے ،ان میں سے کوئی بھی مشرک یا کافر نہیں تھے ۔ کیوں کہ مذکورہ آیت کریمہ  میں بتایا گیا ہے کہ مومن غلام ، مشرک سے بہتر ہے اور حدیث پاک میں بتایا گیا  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر زمانے میں خیرقرون میں رہے ہیں ،یعنی آپ کے آبا واجداد ہر زمانے میں تمام لوگوں میں سب سےافضل و بہتر رہے ہیں ،جس کا نتیجہ یہی نکلتا ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ایمان والوں کی پشت میں رہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کاارشاد پاک ہے :یَا اَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ.(التَّوْبَة: 28)"اے ایمان والو ! مشرک نرے ناپاک ہیں "۔اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادپاک  ہے:"لم یزل اللہ ینقلنی من الاصلاب الطیبۃ الی الارحام الطاھرۃ مصفیًّ مھذبا لا تنشعب شعبتان الا کنت فی خیرھما "(دلائل النبوه لابی نعیم)۔اللہ تعالی مجھے  ہمیشہ پاک مردوں کی پشتوں سے پاک عورتوں کے رحموں کی طرف منتقل کرتارہا،جو بالکل صاف وشفاف  نسب  والےاور مہذب خاندان والےتھے،ہر زمانے میں دو گروہوں میں سے میں بہتر گروہ میں رہا۔مذکورہ آیت و حدیث کو تطبیق دی جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آبا واجداد مؤمن و موحد  ہی تھے ،ان میں سے کوئی بھی مشرک یا کافر نہیں تھے ،کیونکہ قرآن پاک میں مشرکین کو نجس قرار دیا گیا ہے جبکہ حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آباء و امہات کو طیب و طاہر قرار دیا  ہے ۔اور ظاہر ہے کہ طیب وطاہریہ دونوں ایسے صفات ہیں جو کفر وشرک کے بالکل منافی ہیں ، لہذا مشرکین نجس ہیں جو کبھی طاہر نہیں ہوسکتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےآباء و امہات طاہر ہیں جوکبھی نجس نہیں ہوسکتے۔جس کا  حاصل یہی  نکلتا ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اصلاب طیبہ سے ارحام طاہرہ کی طرف گردش کرتا ہوا حضرت عبداللہ اور آمنہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ظاہر ہوا۔لہذا  وہ سب کے سب مومن موحد تھے،اور کفر و شرک، الحاد و بے دینی کی آلودگیوں سے  بالکل پاک او رمنزہ تھے۔
اب ہم ذیل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی شرافت ،طہارت اور بے بہا خدمات  پر مختصر روشنی ڈال رہے ہیں ۔
اولا تو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ نسب تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے (1) حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر عدنان تک، جس میں بائیس نام ہیں ،یہ وہ حصہ ہے کہ جس کی صحت پر علماء سیر کا کوئی اختلاف نہیں ہے کیوں یہ حصہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پا ک سے من وعن ثابت ہے ۔(2)عدنان سے اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک،جس میں علماء سیر کا کافی اختلاف ہے،جیسا کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی تاریخ میں عدنان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک چھ نام گنائے ہیں ،جبکہ علامہ عینی نے آٹھ ،بعض نے سات ،بعض نے پندرہ ، بعض نے انتیس اور بعض نے چالیس اسماء گنائے ہیں (3) حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت آدم علیہ السلام تک ،اس میں بھی علماء سیر کا بہت اختلاف ہے اور اس میں تو بہر حال غلطیاں ہیں ۔
چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرۂ نسب کا حصہ اول ہی متفق علیہ ہے اوراسی میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اس لیے ہم ذیل میں (اوپر سے نیچے کی ترتیب سے) ان کی مختصر حیات اور چند خصوصیات اور زندگی کےکچھ اہم کارناموں کوبیان کررہے ہیں جو خاندان رسالت کی عظمت اور جاہ وجلال کو واضح کرنے کے لیے کافی ہوگا۔
(1)    عدنان :عدنان بن عُد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جداد میں اکیسویں پشت میں ہیں ۔ آپ کا نام عدنان اس لئے مشہور ہوا کہ یہ عدن سے مشتق ہے جس کا معنیٰ قائم اور باقی رہنا ہے ،اور چوں کہ انہیں  شیاطین اور جن وانس کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کر دیا تھا ،اس لیےیہ عدنان کے نام سے موسوم ہوئے۔ علامہ پیر کرم شاہ ازہری اپنی  کتاب "ضیاء النبی "میں لکھتے ہیں کہ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے خانۂ کعبہ کو غلاف پہنایا ۔ (ضیاء النبی جلد اول :104)
(2)    مُعِد:عدنان کے دو فرزند تھے ،معداورعُک،عک نے حجاز کو چھوڑ کر یمن کی سرزمین ،سمران چلے گئے اور وہیں اپنی مستقل حکومت قائم کر لی ،اور ان کے بھائی معد حجاز ہی میں رہے ۔آپ کی والدہ کا نام مہدد بنت اَللہم  تھا۔علامہ احمد بن زینی دحلان  اپنی کتاب "السیرۃ النبویۃ "میں معد کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معد کا معنی تیار ہوتا ہے اور  چوں کہ وہ بنی اسماعیل کے خلاف جنگ وحرب کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے اور جب بھی جنگ آزما ہوتے تھے کامیاب ہی لوٹتے تھے ،اور ان کی یہ کامیابیاں اس نور نبی کی برکت سے تھیں جو ان کی پیشانی میں جلوہ گر تھا۔
(3)    نزار: معد کے دو صاحبزادے تھے نزار اور قنص۔نزار کی کنیت ابو ربیعہ تھی ،آپ کی والدہ کا نام "معانۃ"یا "ناعمۃ" تھا ۔نزار کی وجہ تسمیہ کے بارے میں علامہ سہیلی فرماتے ہیں کہ جب نزار کی پیدائش ہوئی تو آپ کے والد معد نے آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور نبوت کو دیکھا جو نسلا بعد نسل ٍ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منتقل ہو تا چلا آرہا تھاتو بے حد خوش ہوئے اور اونٹ ذبح کرکے دعوت طعام کا اہتمام کیا اور کہا کہ اس بچے کے حق میں یہ بہت کم ہے اسی وجہ سے ان کا نام نزار پڑ گیا جس کا معنی قلیل ہوتا ہے۔علامہ زینی فرماتے ہیں کہ نزار اپنے وقت کے بڑے حسین وجمیل تھے اور عقل وفہم میں اہل زمانہ پر فائق تھے۔
(4)    مضر: ان کی والدہ کا نام سودہ بنت عک تھا ۔علامہ ابن جریر طبری اپنی تاریخ میں مضر کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب نزار کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے تمام بیٹوں کو جمع کرکے کچھ وصیتیں کی اور اپنا مال ان کے درمیان تقسیم کیا ،جس میں انہوں نے سرخ خیمہ اور اس کےمشابہ دوسری چیزیں مضر کو دیا ،اسی دن  سے ان کا نام مضر الحمراء پڑ گیا ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ مضر کے چہرے پر نور نبوت کےضوفشاں ہونے کی وجہ سے  وہ اتنا زیادہ حسین وجمیل تھے کہ دیکھنے والے کو اپنا شیدائی بنا لیتے تھے،جس کی وجہ ان کو مضر کہا جاتا تھا ۔اسی طرح آپ نہایت خوش الحان بھی تھے۔آپ کی حکمت آمیز بے شمار اقوال ہیں ۔علامہ زینی لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے آپ ہی قربانی کا جانور خانۂ کعبہ لے گیے۔
(5)    الیاس:آپ کی کنیت ابو عمر وتھی ،آپ کی والدہ کا نام رہاب بنت حیدہ بن معد تھا ،آپ قبائل عرب کے سردار تھےجس کی وجہ سے عرب آپ کو سید العشیرہ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ علامہ پیر کرم شاہ ازہری ابن زبیر کے حوالے سے  لکھتے ہیں کہ جب الیا س جوان ہوئے تو اولاد اسماعیل میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ان سب کو ختم کیا اور انہیں اپنے جلیل القدر آباء واجداد کی سنن واطوار پر عمل کرنے کی  بزورتلقین کی ،قبیلے کے سارے مرد وزن آپ کی دل سے تعظیم کرتے تھےاور آپ کو عزت واجلال کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
(6)    مدرکہ:آپ کا اصلی نام عمرو  یا عامر تھا ،والدہ کا نام لیلیٰ بنت حلوان تھا جو یمن کے ایک قبیلے کی خاتون تھیں۔اپنے اوصاف جمیلہ کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں،یہی وجہ تھی کہ ان کی اولاد کو باپ کی بجائے ماں کی طرف منسوب کیا گیا ۔علامہ ابن جریر طبری اپنی تاریخ میں مدرکہ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عامر اور اس کے بھائی اونٹ چرا رہے تھے، اسی اثنا میں ایک شکار ہاتھ لگا ،وہ اسے پکانے میں مصروف ہوگیے ،ادھر اونٹ بدک کر بھاگ گیا ۔عامر نے اپنے بھائی سے کہا کہ تم اونٹ پکڑنے جاؤگے یا شکار پکاؤگے ؟اس کے بھائی نے کہا میں شکار پکاؤں گا ،عامرنے اونٹ کا پیچھا کیا اور اسے پکڑ لیا ،شام کو گھر واپس آکر اپنے والد سے واقعہ بیان کیا تو والد خوش ہوکر عامر سے کہا "انت مدرکہ"( پانے والا)اور اس کے بھائی سے کہا "انت طابخہ"(پکانے والا)،اسی روز سے دونوں بھائی اسی نام سے مشہور ہوگئے۔
(7)    خزیمہ:مدرکہ کے دو بیٹے تھے ،خزیمہ اور ہزیل ۔خزیمہ کی کنیت ابو الاسد تھی ،ان کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت اسلم تھا ۔لوگوں پر آپ کے بے شمار اکرامات وانعامات تھے ،آپ اخلاق کے دھنی تھے ،آپ کے فضائل ومکارم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ "جتنے فضائل ومکارم تھے وہ سب کہ سب تیزی کے ساتھ خزیمہ میں جمع ہو گئے،حتی کہ ان میں کوئی فضل باقی نہیں رہ گیا "۔ علامہ پیر کرم شاہ ازرہی علیہ الرحمہ نے حضرت عبد اللہ عباس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ خزیمہ کہ وفات ملت ابراہیمی پر ہوئی۔
(8)    کنانہ :خزیمہ کے چار بیٹے تھے جن میں کنانہ سب سے بڑے تھے ،ان کی والدہ کا نام عوانہ بنت سعد تھا۔کنانہ اپنے زمانے میں بڑے ہی فضل والے شخص تھے ،آپ کے بارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:ان اللہ اصطفیٰ کنانۃ من ولد اسماعیل واصطفی قریشا من کنانۃ ،واصطفیٰ من قریش بنی ھاشم ،واصطفانی من بنی ھاشم"یعنی اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل میں  کنانہ کوچن لیا،اور کنانہ میں قریش کو ،اور قریش میں بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں مجھ کو "(مسلم شریف،کتاب الفضائل،باب فضل نسب النبی وتسلیم الحجر علیہ :5950)
(9)    نضر:کنانہ کے بھی چار لڑکے تھے ،جن میں نضر سب سے بڑے تھے،ان کا نام قیس تھا ،ابن ہشام نے کہا ہے کہ قریش انہیں کا نام ہے اور انہیں کی اولاد قریشی ہے ان کے علاوہ کسی کی اولاد قریشی نہیں کہلائے گی ۔ان کی کنیت ابو یخلد تھی ،ان کی والدہ کا نام برہ بنت مر تھا ۔لیکن یہ مضرہی سے مشہور تھے ،مضر  کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چوں کہ آپ حس وجمال میں یکتائے روزگار تھےاس لیے اس نام سے مشہور ہوگیے ۔
(10) مالک:ان کی کنیت ابو الحارث تھی،ان کا لقب عکرشہ تھا ، ان کی والدہ کا نام عاتکہ تھا ۔
(11)فہر: مالک کے دو لڑکے تھے فہر اور حارث ،فہر کی کنیت ابو غالب تھی ،والدہ کا نام جندلہ بنت عامر تھا ۔زیادہ تر مؤرخین نے انہیں کو قریش کہا ہے ۔یہ مکے میں رئیس اور اپنے قبیلے کے سردار میں تھے ،انہیں جماع قریش بھی کہا جاتا تھا۔علامہ ابن جریر وغیرہ نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حاکم یمن حسان بن عبد کلال نے مکہ پر حملہ کیا تاکہ خانۂ کعبہ کو ڈھا دے اور یمن میں دوسرا کعبہ تعمیر کرے اور لوگ مکہ کی بجائے یمن حج کے لیے آئیں ، جب قریش اور مکہ کے دیگر قبائل نے یہ زیادتی دیکھی تو فہر کی قیادت میں ان کا مقابلہ کیا اور ایک خوں ریز جنگ کے بعد حسان کو شکست فاش ہوئی اور انہیں گرفتار بھی کرلیا گیا اور تین سال تک مکہ ہی میں مقید رہے ،یہاں تک کہ فدیہ دے کر رہائی حاصل کرلی ،لیکن مکہ سے یمن جاتے ہوئے راستے ہی میں  انتقال ہوگیا۔فہر، حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے چھٹی پشت کے دادا ہیں۔
(12) غالب:ان کی کنیت ابو تمیم تھی ،ان کی ماں کا نام لیلیٰ بنت حارث تھا ،ایک روایت کے مطابق ان کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت عمرو تھا ۔
(13)لوَی:غالب کے دو بیٹے تھے لوَی اور تمیم۔ان کی والدہ کا نام عاتکہ بنت یخلد تھا ۔
(14) کعب:لوَی کے چار بیٹے تھے ،انہیں  میں کعب بھی تھے،ان کی کنیت  ابو ہصیص تھی ،آپ جمعہ کے دن لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیتےتھے،اور انہیں نصیحت کرتےاور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا تذکرہ کرتے تھے ،اور انہیں بتاتے تھے کہ وہ میری اولاد ہی میں سے ہوں گے ،ساتھ ہی انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔آپ حضرت عمر بن خطاب کے آٹھویں  پشت کے دادا ہیں۔
(15) مرہ:کعب کے تین لڑکے تھے ،مرہ ،عدی اور ہصیص ،مرہ کی کنیت ابو یقظہ تھی ،ان کی ماں کا نام وحشیہ تھا۔حضرت ابو بکر صدیق کا نسب ان پر آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
(16) کلاب:مرہ کے بھی تین بیٹے تھے ،کلاب،تیم اور یقظہ۔کلاب کی کنیت ابو زہرہ تھی،ان کی ماں کا نام ہند بنت سریر تھا ۔ان کا اصل نام حکیم تھالیکن مشہور کلاب سے تھے ،اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ اکثر کتوں کے ذریعے شکار کرتے تھے اس لیے اسی نام سے مشہور ہوگئے۔یہ حضرت آمنہ  رضی اللہ عنہا کے جد ثالث ہیں ۔ایک روایت میں ہے کہ آج جو عربی مہینوں کے نام مستعمل ہیں یہ انہوں نے رکھا تھا۔
(17) قصَی:کلاب کے دو بیٹھے تھے ،قصی اور زہرہ ۔"السیرۃ النبویۃ " میں ہے کہ قصی کی پیدائش لگ بھگ 400 عسوی میں ہوئی ۔قصی کااصلی نام زید تھا اور قصی ان کا لقب تھا لیکن یہ اپنے لقب ہی سے مشہور ہوگئے،علامہ ابن جریر نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ جب یہ شیر خوار تھے اسی وقت ان کے والد کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے ان کی والدہ فاطمہ بنت سعد نے بنی قضاعہ کے ایک شخص سے نکاح کر لیا اور قصی ابھی چوں کہ  شیر خوار ہی تھا جس  کی وجہ سے ان کی ماں انہیں اپنے ساتھ بنو قضاعہ لے گئیں اور وہیں ان کی تربیت ہوئی ،ایک روز کسی قضاعی شخص نے انہیں اجنبی ہونےکا طعنہ دیا اور کہا کہ تم ہماری قوم میںرہتے  ہو اور اپنی قوم میں کیوں نہیں چلے جاتے ہو ،یہ سن افسردہ ہوئے اور اپنی ماں سے حقیقت کا پتہ لگایا ،ماں نے کہا بیٹا تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تم تو ایسے خاندان کے ہو جو سارے عرب میں معظم ومکرم ہے ،بالآخر اس کے بعد قصی اپنی ماں کی اجازت لے کر ایام حج میں مکہ چلے گئے ،حج ادا کیے اور اپنے بھائی زہرہ کے پاس مقیم ہوگئے۔تو چوں کہ زمانۂ طفولیت اپنے وطن سے دور گزرا تھا ،اس لیے قصی کے نام سے مشہور ہوگئے۔کعبہ کی تولیت پہلے ابو غبشان کے پاس تھی لیکن قصی نے ایک مشک شراب اور ایک عود کے عوض تولیت کعبہ کو خریدی،جس پر جنگ بھی ہوئی لیکن بہر حال قصی کی فتح ہوئی جس بعد وہ مستقل متولی بن گئے۔پھر انہوں نے قریش کے منتشر قبیلے کو اکٹھا کیاا ور انہیں مکہ کی وادیوں میں  بسایا،اس عظیم کام کی وجہ سے انہیں مجمع بھی کہا جاتا تھا۔انہوں نےدنیا میں پہلی بار جمہوری حکومت قائم کی ،اس سے پہلے دنیا میں جمہوری حکومت کا کوئی تصور نہیں تھا ۔انہوں نے اپنے اعلیٰ دماغ کے ذریعے اپنی قوم کی بہت خدمت کی،انہوں نے دار الندوہ  قائم کیا جہاں لوگ اکٹھا ہوکر مجالس مشاورت منعقد کرتے تھے ،اسی طر ح رفادہ کا نظام قائم کیا جس کے تحت کھانا کھلایا جاتا تھا، اسی طرح سقایہ کا انتظام کیا جس کے ماتحت حاجیوں کو پانی پلایا جاتا تھا ،اورخانۂ کعبہ کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک مستقل محکمہ بنایا جسے حجابہ کہا جاتا تھا ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی اہم اہم کارنامے انہوں نے انجام دیے۔80سال کی دراز عمر گزارنے کے بعد ان کی وفات 480عسوی میں ہوئی ۔
(18)عبد مناف:قصی کے چار بیٹے تھے جن میں عبد مناف یکتائے روزگار تھے ۔ان کا اصلی نام مغیرہ تھا ،ان کی ماں کا نام حبیٰ تھا جو مناۃ نامی بت کی خدمت کے لیے وقف کردی گئی تھی اور اسی مناسبت سے ان کا نام عبد مناۃ پڑ گیا تھا،لیکن ان والد نے بعد میں اسے بدل کر عبد مناف کر دیا اور اسی سے مشہور ہوگئے ۔یہ بے حد حسین وجمیل تھے جس کی وجہ سے انہیں قمر البطحاء کہا جاتا تھا ،اپنے بھائیوں میں بڑے نہیں تھے لیکن باوجود اس کے قریش کی قیادت وسیادت انہیں کے ہاتھ میں تھی ،آپ بڑے فیاض اور حق شناس شخص تھے۔یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جد رابع ہیں۔
(19) ہاشم :عبد مناف کے  بھی چار بیٹے تھے جن میں ہاشم سب سے لائق وفائق تھے ۔ ان کا اصلی نام عمرو تھا لیکن ہاشم سے مشہور تھے علامہ ابن جریر نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان کی قوم سخط قحط میں مبتلا تھی انہوں نے فلسطین جاکر آٹا لایا ،روٹی بنوائی ، اونٹ ذبح کیااورروٹیوں کو توڑ کر گوشت میں ملا کر اپنی قوم کی دعوت کی، جس کی وجہ سے وہ ہاشم کے نام سے مشہور ہوگئے۔ اپنے والد کے بعد ہاشم خانۂ کعبہ کے متولی ہوئے اور سقیہ ،رفادہ وغیرہ کے انتظام کی ذمہ داری انہیں کے سپرد ہوئی،چوں کہ آپ اپنے خاند ان میں بڑے معزز ومکرم تھے جس کی  وجہ سے آپ کے خاندان کو ہاشمی خاندان کہا گیا ۔انہیں سید البطحاء بھی کہا جاتاتھا۔یہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سال میں دو سفر کا رواج قائم کیا ،ایک جاڑے میں یمن اور حبشہ کی طرف اور دوسرا گرمی میں شام کی طرف ،اور انہیں دونوں سفر کا ذکر سورۂ قریش میں آیا ہے ۔ہاشم کی وفات شام کے ایک شہر غزہ میں 510عسوی میں حالت سفر میں ہوئی۔
(20) عبد المطلب:ہاشم کے چار لڑکے تھےجن میں ہاشمی خاندان کا شرف انتساب  عبد المطلب کی طرف ہوا،آپ کا اصلی نام شیبہ تھا اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تھے تو آپ کے سر کے چند بال سفید تھے اس لیے آپ کا نام شیبہ رکھ دیا گیا ،آپ کی کنیت ابو الحارث تھی اور والدہ کا نام سلمیٰ بنت زید تھا ۔آپ کے والد کاچوں کہ آپ کے پیدا ہونے کے چند دنوں پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا اس لیے ان کی پرورش ان کی ماں ہی نے کی ،لیکن جب ہوش سنبھالنے کے قابل ہوئے تو آپ کے چچا نے آپ کے والد کی تمام جائدادیں اور عہدے مثلا رفادہ،سقایہ،وغیرہ تمام آپ کو واپس کردیے۔آپ بڑے فیاض تھے ،انسان تو انسان جانوروں پر بھی فیاضی سے کام لیتے تھے حتیٰ کہ جب کھانے بیٹھتے تو اپنے کھانے میں سے چرند وپرند کو بھی دے دیتے تھے ،جس کی وجہ سے ان کو مطعم الطیر بھی کہا جاتا تھا ۔آپ ہی نے اسماعیل علیہ السلام کے زمزم کےکنووے کو  دوبارہ تلاش کیا اور اسے کھود کر لوگوں کے لیے عام کردیا جس سے آج بھی لوگ سیراب ہوتے ہیں ،اور مستفید ہوتے ہیں ۔آپ نے کئی شادیاں کی،جن سے کل دس لڑکے اور چھ لڑکیاں پیدا ہوئیں ۔
(21) عبد اللہ بن عبد المطلب:آپ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ،نہایت حسین وجمیل اور والد کے ہردل عزیز تھے ،آپ کی والدہ کانام فاطمہ بنت عمرو بن عائذ تھا ۔آپ کو ذبیح ثانی بھی کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عبد المطلب نے زمزم کے کنویں کو کھودتے وقت  یہ منت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے ہوں گے اور سب کے سب جوان ہو کر صحت مند رہیں گے تو ان میں سے ایک اللہ کی راہ میں قربان کر دیں گے ،عبد المطلب کی آرزو پوری ہوئی ،آپ نے قرعہ ڈالا کہ جس لڑکے کا نام قرعہ میں نکلے گا انہیں اللہ کے لیے قربان کر دےگا ،اتفاقا قرعہ آپ کے محبوب ترین صاحبزادے عبد اللہ  کے نام نکلا ،عبد المطلب نے حضرت عبد للہ کا ہاتھ پکڑا اور چھری لے کر کعبے کے پاس  انہیں قربان کر نے لیے آئے ،لیکن قریش اور حضرت عبد اللہ کے ننہال والے بیچ میں آگیے اور انہیں قربان کرنے سے روک دیے ،اور ایک کاہنہ کے مشورے پر حضرت عبد اللہ اور اونٹوں پر قرعہ اندازی ہوئی ،کئی بار قرعہ اندازی کے بعد حضرت عبد اللہ کے بدلے سو اونٹ قرعہ میں آئے،لہذا ان کے بدلے سو اونٹ ذبح کیے گئے ۔آپ اتنے زیادہ خوبصورت تھے کہ  بہت سےخواتین نے ان کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی یا ان سے عقد کی خواہش کی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ بننے کی سعادت حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قسمت میں لکھی تھی، جو بنی زہرہ کے سردار کی بیٹی تھیں ،حضرت  عبد المطلب نے حضرت عبداللہ کا تقریبا  پچیس سال کی عمرہی  میں 570ء میں نکاح کر دیا تھا اورحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً چھ ماہ پہلے ہی مدینہ کےسفر سے واپسی کے  درران وفات پا گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء واجداد کے یہ مختصر حالات وکارنامے ہیں جن کااوپر تذکرہ ہوا ،ورنہ ان کے اور بھی بے شمار خدمات،کارنامےاور فضائل ومناقب ہیں جن سے کتب سیر وتواریخ بھرے پڑے ہیں ۔بہر حال  ثابت ہوگیا  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آباء واجداد یکتائے روزگار ،اور اپنے اپنے زمانے میں معظم ومکرم تھے ،ساتھ ہی ماقبل میں ذکرہ کردہ دلائل سے  یہ بھی وضح ہوگیا کہ ان میں سے  ہرایک موحد ومؤمن تھے اور ان میں کوئی بھی بت پرست ،کافر ومشرک ،اور بد اخلاق نہیں تھے۔

محمد احسان الحق جامعیؔ کشن گنجوی
ریسرچ سکالر:اے.بی.آئی.آر.ٹی.آئی.علی گڑھ
Mobile: 8543920594

Monday, December 21, 2015

jashne-wiladat akabire-islam ki nazar main جشن ولادت رسول ﷺ اکابر اسلام کی نظر میں

جشن ولادت رسول اکابر اسلام کی نظر میں


ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منانا جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن  عمل ہے ۔اور اس بارے میں امت کے  جید فقہاء ،علماءاورمحدثین کی تصریحات موجود ہیں حتی کہ  کچھ نےتو جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کو باعث اجر وثواب قرار دیا ہے،لہذا ہم ذیل ان کے کچھ اقوال و تصریحات  کو باحوالہ پیش کررہے ہیں ۔
1۔ حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ (متوفی 150ھ) نےاپنے ’’قصیدہ نعمانیہ‘‘ میں حضور نبی اکرمﷺ کے میلاد شریف کا اس طرح بیان فرمایا ہے:"حضور ﷺ وہ ہیں کہ اگر آپﷺ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا اور آپ پیدا نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ پیدا کیا جاتا"(قصیدۂ نعمانیہ:196)
2۔ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ (متوفی 204ھ)فرماتے ہیں کہ "میلاد شریف منانے والا صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا" (النعمتہ الکبریٰ بحوالہ :برکات میلاد شریف: 6)
3۔ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ (متوفی 241ھ)فرماتے ہیں :"شب جمعہ، شب قدر سے افضل ہے کیونکہ جمعہ کی رات سرکار علیہ السلام کا وہ نور پاک اپنی والدہ سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے مبارک رحم میں منتقل ہوا جو دنیا و آخرت میں ایسی برکات و خیرات کا سبب ہے جوکسی گنتی و شمار میں نہیں آسکتا"(اشعتہ اللمعات)
4۔ امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (متوفی 606ھ) فرماتے ہیں: "جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا، اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا تو ایسا شخص برکت نبوی سے محتاج نہ ہوگا اور نہ ہی اس کا ہاتھ خالی رہے گا"(النعمتہ الکبری:بحوالہ برکات میلاد شریف :5)
5۔حافظ ابن کثیر (متوفی 774ھ) فرماتے ہیں "رسول اﷲﷺ کی ولادت کی شب اہل ایمان کے لئے بڑی شرافت، عظمت، برکت اور سعادت کی شب ہے۔ یہ رات پاکی ونظافت رکھنے والی، انوار کو ظاہر کرنے والی، جلیل القدر رات ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس رات میں وہ محفوظ پوشیدہ جوہر ظاہر فرمایا جس کے انوار کبھی ختم ہونے والے نہیں"(مولد رسول ﷺ:262)
6۔ حافظ حدیث علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ (متوفی 852ھ) ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:"میرے لئے محفل میلاد کی تخریج ایک اصل ثابت سے ظاہر ہوئی، اور یہ وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے:کہ"حضور نبی کریمﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ صالح دن ہے، کہ جس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی ،تو موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا اور اپنے متبعین کو روزہ رکھنے کا حکم دیا"(بخاری، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء :2004)علامہ ابن حجرعسقلانی فرماتے ہیں:" اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے کسی معین دن میں احسان فرمانے پر عملی طور پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ اور حضور ﷺ کی تشریف آوری سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے" (نثرالدر علی مولد لابن حجر: 47)
7۔ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ (متوفی 911ھ) فرماتے ہیں کہ "میلاد النبی ﷺ کے سلسلہ میں منعقد کی جانے والی مروجہ محافل میلاد بدعت حسنہ ہے جس کا اہتمام کرنے والے کو ثواب ملے گا۔ اس لئے کہ اس میں حضور نبی کریم ﷺ کی تعظیم، شان اور آپ کی ولادت باسعادت پر فرحت و مسرت کا اظہار پایا جاتا ہے "(حسن المقصد فی عمل المولد: 173)
8۔ ملاعلی قاری علیہ الرحمہ(متوفی 1014ھ) اپنی کتاب "المورد الروی" کی تقدیم میں فرماتے ہیں:"جب میں ظاہری دعوت وضیافت سے عاجز ہوا تو یہ اوراق میں نے لکھ دیا تاکہ یہ معنوی ضیافت ہوجائے اور زمانہ کے صفحات پر ہمیشہ رہے، سال کے کسی مہینے سے مختص نہ ہو اور میں نے اس کا نام "الموردالروی فی مولد النبیﷺ" رکھا ہے" (المورد الروی : 34)
9۔ حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں "ہمیشہ مسلمان ولادت پاک کے مہینے میں محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں اور دعوتیں کرتے ہیں اور اس ماہ کی راتوں میں ہر قسم کا صدقہ کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں، نیکی زیادہ کرتے ہیں اور میلاد شریف پڑھنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں" (انوار محمدیہ ص 29)
10۔ مفتی مکہ مکرمہ حضرت سید احمد زینی شافعی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں "میلاد شریف کرنا اور لوگوں کا اس میں جمع ہونا بہت اچھا ہے" (سیرۃ نبوی ص 45)
ایک اور جگہ حضرت مفتی مکہ مکرمہ فرماتے ہیں: "محافل میلاد اور افکار اور اذکار جو ہمارے ہاں کئے جاتے ہیں ان میں سے اکثر بھلائی پر مشتمل ہیں جیسے صدقہ ذکر، صلوٰۃ و سلام، رسول خداﷺ پر اور آپ کی مدح پر" (فتاویٰ حدیثیہ : 129)
11۔ محدث کبیر علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: "یہ عمل حسن (محفل میلاد) ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ، مصر، یمن و شام تمام بلاد عرب اور مشرق و مغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے اور وہ میلاد النبیﷺ کی محفلیں قائم کرتے اور لوگ جمع ہوتے ہیں"(المیلاد النبوی : 35-34)
12۔ شیخ محمد بن علوی المالکی الحسنی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: "حضورﷺ اپنی میلاد شریف کے دن کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر اسے بہت بڑا اور عظیم واقعہ قرار دیتے ہیں اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا فرماتے کہ یہ آپ کے لئے بہت بڑا انعام و اکرام و نعمت ہے۔ نیز اس لئے کہ تمام کائنات پر آپ کے وجود مسعود کو فضیلت حاصل ہے" (حوال الامتفال بالمولد النبوی شریف : 9,8)
13۔ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد المعروف امام قسطلانی فرماتے ہیں :"حضورﷺ کے پیدائش کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانے پکاتے رہے اور دعوت طعام کرتے رہے ہیں۔ اور ان راتوں میں انواع و اقسام کی خیرات کرتے رہے اور سرور ظاہر کرتے چلے آئے ہیں" (مواہب لدنیہ ،ج 1: 27)
14۔ حضرت امام ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ کے پوتے فرماتے ہیں "مجھے لوگوں نے بتایا کہ جو ملک مظفر (بادشاہ وقت) کے دسترخوان پر میلاد شریف کے موقع پر حاضر ہوئے کہ اس کے دسترخوان پر پانچ ہزار بکریوں کے بھنے ہوئے سر، دس ہزار مرغ، ایک لاکھ پیالی مکھن کی اور تیس طباق حلوے کئے تھے اور میلاد میں اس کے ہاں مشاہیر علماء اور صوفی حضرات حاضر تھے۔ ان سب کو خلعتیں عطا کرتا تھا۔ اور خوشبودار چیزیں سنگھاتا تھا اور میلاد پاک پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا (سیرۃ النبوی: 45)
15۔ حضرت شاہ احمد سعید مجددی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں "جس طرح آپ خود اپنی ذات پر درود وسلام بھیجا کرتے تھے، ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں، کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں (ان کے) ذریعے شکر بجالائیں" (اثبات المولد والقیام : 24)
16۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم رحمتہ اﷲ علیہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ’’میرے والد نے مجھے خبر دی کہ میں عید میلاد النبی ﷺ کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا۔ ایک سال تنگدست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر صرف بھنے ہوئے چنے تھے۔ میں نے وہی چنے تقسیم کردیئے۔ رات کو سرکار دوعالم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا اور کیا دیکھتا ہوں کہ حضورﷺ کے سامنے وہی چنے رکھے ہیں اور آپ خوش ہیں"(درثمین : 8)
17۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے (الدرالمنظم : 89)
18۔ مفتی اعظم شاہ محمد مظہر اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ 12 ربیع الاول کو ہر سال بڑے تزک واحتشام سے محفل میلاد منعقد کراتے، جو نماز عشاء سے نماز فجر تک جاری رہتی پھر کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کیا جاتا اور مٹھائی تقسیم ہوتی، کھانا کھلایا جاتا (تذکرہ مظہر مسعود : 176)
19۔علامہ ابن جوزی" مولد العروس "کے ص 9 پر فرماتے ہیں:وجعل لمن فرح بمولدہ حجابا من النار و سترا، ومن انفق فی مولدہ درہما کان المصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم لہ شافعا ومشفعا
(اور جو پیارے مصطفی ﷺ کے میلاد شریف کی خوشی کرے، وہ خوشی، دوزخ کی آگ کے لئے پردہ بن جائے اور جو میلاد رسول اﷲﷺ میں ایک درہم بھی خرچ کرے، حضورﷺ اس کی شفاعت فرمائیں گے اور ان کی شفاعت مقبول ہوگی)اور ص 28پر محدث ابن جوزی یہ اشعار لکھتے ہیں:یا مولد المختار کم لک من ثنا۔۔۔ ومدائح تعلو وذکر یحمد یالیت طول الدھر عندی ذکرہ۔۔۔ یالیت طول الدھر عندی مولد(اے میلاد رسول ﷺ تیرے لئے بہت ہی تعریف ہے اور تعریف بھی ایسی جو بہت اعلیٰ اور ذکر ایسا جو بہت ہی اچھا ہے۔ اے کاش طویل عرصے تک میرے پاس نبی پاک ﷺ کا تذکرہ ہوتا، اے کاش طویل عرصے تک)
ان کے علاوہ اور بھی بے شمار  علماء اسلام کی تصریحات واقوال ہیں جن میں انہوں نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ جشن ولادت رسول ﷺمنانا نہایت کار خیر اور باعث اجر وثواب ہے ۔



Published By ahlehaque.blogspot.in

Wednesday, December 9, 2015

ɪmam ahmad raza and tasauf

امام احمد رضا  اور تصوف

یہ مقالہ ہندوستان کے مشہور اخبار، روزنامہ اودھ نامہ اورروزنامہ متاع آخرت میں شائع ہوچکا ہے نوٹ: -    
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سلسلۂ قادریہ کے عظیم بزرگوں میں سے ہیں۔ جس طرح آپ کی عالمانہ شخصیت ظاہر وباہر ہے اسی طرح صوفیانہ زندگی بھی واضح اور روشن ہے۔کیوں کہ آپ کی پوری زندگی صوفیانہ کردار وعمل سے مزین اور آراستہ وپیراستہ نظر آتی ہے۔خوف وخشیت ربانی،محبت کامل وعشق حقیقی،تحمل وبردباری،زہد وپرہیزگاری،عفت وپارسائی،تحمل وبردباری،حق گوئی وبے باکی،صداقت وراست بازی،ایثار وقربانی،امانت و دیانت ،تقویٰ وطہارت،خلوص وللہیت،اخوت ومروت ،کرم وسخا،صبر وشکر،حسن خلق وحسن معاشرت وغیرہا صفات جمیلہ وخصائل حمیدہ،جو ایک صوفی کامل کے لیے طرۂ امتیاز کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ سب کے سب آپ کی ذات با برکات میں مجتمع تھیں۔آپ حضور غوث پاک کی تعلیمات پر بصدق دل عمل کرتے تھے اور ان سے بے حدعقیدت و محبت رکھتے تھے۔اسی طرح آپ سادات کرام کا انتہائی ادب واحترام کرتے تھے۔ ایک صوفئ کامل کے لیے جن جن صفات کا ہونا ضروری ہے وہ تمام صفات آپ کے اندر موجود تھیں۔ ذیل میں ہم آپ کے چند صفات حمیدہ کو بطور نمونہ پیش کررہے ہیں۔
ریاضت ومجاہدہ: 
ریاضت ومجاہدہ ان اعمال واشغال میں سے ہیں، جن کے ذریعے صوفیاء کرام مقام قرب کو حاصل کرتا ہے  جس کے لیے وہ حضرات اپنے نفس کو مکمل طور پر کچل دیتے ہیں ۔اس سلسلے میں جب ہم اعلی حضرت کی ذات کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اندر ریاضت ومجاہدہ اور نفس کشی کامل طور پر موجود تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ مجاہدہ کے لیے کھاناپینا چھوڑ دیا حتی کہ مسلسل باسٹھ وقت تک آپ نے کچھ بھی نہیں کھایا پیا،جب کھانے کے لیے اصرار کیا جاتا تو آپ نے فرماتے جب روح کو غذا ملتی رہے تو جسم کو غذا فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔پھر والدین کریمین کی رضا وخوشنودی اور خواب میں اصرار کا خیال کرتے ہوئے کھانا شروع فرمایا۔ اسی طرح دین کی خدمت اور اسلام کی نشر واشاعت میں دشواریوں کا سامنا کرنے کو بھی عظیم مجاہدہ قرار دیا جاتا ہے،اس نقطۂ نظر سے بھی اگر آپ کی حیات طیبہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی احیاء دین،نصرت حق،حمایت مذہب،اشاعت دین وسنت اور لوگوں کی اصلاح وتربیت میں بے حدصعوبتوں اور دشواریوں کا سامنا کیا۔ریاضت ومجاہدہ کے سلسلے میں آپ کے بے شمار اقوال وفرمودات بھی موجود ہیں،جیسا کہ الملفوظ میں ہے کہ آپ نے فرمایا :کہ اس میں کیا ریاضت تھوڑی ہے جو عزلت نشیں ہوگیا نہ اس کے قلب کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے نہ اس کی آنکھوں کو، نہ اس کے کانوں کو،اس سے کہیے جس نے اوکھلی میں سردیا ہے اور چاروں طرف سے موسل کی مار پڑرہی ہے۔(الملفوظ،سوم ص:۹۹۴ ،مطبع اڈوانس پرنٹنگ،دہلی)
تقویٰ وطہارت اور اتباع شریعت: 
ایمان کی تکمیل کے لیے شریعت طیبہ پر عمل پیرا ہونا ہر مسلمان مکلف کے لیے لازم ہے،اسی طرح صوفئ کامل بننے کے لیے اتباع شرع اور تقویٰ وطہارت نہایت ضروری ہے اس کے بغیر کوئی شخص درجہ ولایت اور مقام صوفیت کو پہنچ ہی نہیں سکتا ہے۔اس تناظر میں جب ہم اعلی حضرت کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ تقوی وطہارت اور اتباع شرع میں یکتائے روزگار نظر آتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آپ کے تقویٰ وطہارت کا یہ حال تھا کہ آپ قبلے کی طرف کبھی نہیں تھوکتے اور نہ ہی کبھی اس طرف پاؤں دراز کرتے ،بلکہ جب چھ سال کی عمر میں بغدادشریف کی سمت معلوم ہوئی تو آپ نے اس کے بعد اس طرف کبھی بھی پاؤں نہیں پھیلایا،چونکہ آپ کو حضور غوث پاک سے نہایت الفت ومحبت تھی۔آپ کے تقویٰ وطہارت ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ہمیشہ اپنی زندگی کے تمام معاملات میں نہایت ہی احتیاط برتتے ،اور کبھی بھی کوئی خلاف شرع کام نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی خلاف شرع بات برداشت کرتے۔
توضع وانکساری:
تواضع وانکساری اور محاسبۂنفس، سلوک وتصوف کی علامت و نشانی  اور صوفیاومشائخ کی محبوب ترین عادات میں سے ہے۔تواضع وخاکساری ایسی عظیم نعمت ہے کہ جس کے ذریعے انسان بارگاہ الٰہی کا مقرب بن جا تا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے حکم شرع اور اتباع سلف میں زندگی کے ہر ہر موڑ پر تواضع وخاکساری کو اختیار کرنا باعث فخر اور متاع نجات سمجھا،اس کی بے شمار شواہد آپ کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں  میں موجود ہیں جیسے حضور ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ کی کتاب "حیات اعلیٰ حضرت" اسی طرح ماہنامہ قاری کا "اعلیٰ حضرت نمبر "وغیرہ میں ہے کہ آپ پان بہت کھاتے تھے ایک دن شام کے وقت پان نہیں آئے مغرب سے تقریبا دو گھنٹے بعد گھر کے ملازم کا ایک بچہ پان لایا،آپ نے اسے ایک طمانچہ رسید کردیا۔بوقت سحر،سحری کھا کر مسجد کے باہر دروازے پر تشریف لائے،اس بچے کو بلوایا اور فرمایا: شام کو میں نے غلطی کی جو تمہیں طمانچہ لگادیا،تمہارا تو کوئی قصور نہیں تھا،قصور تو دیر سے بھیجنے والے کا تھا،لہذا تم میرے سر پر طمانچہ مارو اور ٹوپی اتار کر اصرار فرمانے لگے،یہ دیکھ کر بچہ بہت پریشان ہوا اور کانپنے لگا اور ہاتھ جوڑ کر عرض کرنے لگا حضور میں نے معاف کردیا،تو آپ نے فرمایا تم نابالغ ہو تمہیں معاف کرنے کا حق نہیں،تم طمانچہ مارو ،مگر بالآخر وہ مار نہ سکا،اس کے بعد آپ نےاپنا بکس منگوا کر مٹھی بھر پیسے دکھا کر فرمایا :میں تم کو یہ دوں گا تم مجھے طمانچہ مارو مگر وہ بیچارہ یہی کہتا رہا کہ حضور میں نے معاف کیا،حتیٰ کہ آپ نے خود سے اس کا ہاتھ پکڑ کر بہت سے طمانچے اپنے سرمبارک پہ اس کے ہاتھ لگوائے اور پھر اس کو پیسے دیکر رخصت فرمایا۔اس کے علاوہ اور بھی کئی واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہےکہ آپ خاکسری اور انکساری کے اعلی مقام پر فائز تھے۔
توکل وقناعت اور کرم وسخاوت:
توکل وقناعت اور سخاوت وکرم نوازی تصوف کی جان اور اس کی اصل ہے اور یہ صوفیاء کرام کے لیے طرۂامتیاز ہے۔اعلیٰ حضرت توکل وقناعت اور کرم وسخا میں بھی اعلیٰ مقام پر فائز تھے،اگر چہ آپ دنیاوی اعتبار سے صاحب ثروت اور جاگیردار تھے مگر ہاتھ میں جو رقم آتی اسے راہ خدا اور خدام وغیرہ یا دینی وفلاحی کاموں میں صرف فرمادیتے،حتی کہ آپ ایک جاگیر دار ہونے کے باوجود آپ پر کبھی زکوٰۃ فرض نہ ہوئی کیوں کہ آپ کے پاس اتنا مال ایک ساتھ کبھی جمع ہی نہیں ہوا کہ جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی۔ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ کے پاس ایک حاجت مند اپنی حاجت لے کر آیا،آپ نے فرمایا اس وقت میرے پاس صرف تین آنے پیسے ہیں  وہ بھی بعض خطوط کے جوابات کے لیے رکھے تھے اگر آپ فرمائیں تو حاضر کردوں،اس بیچارے نے آبدیدہ ہوکر نظر جھکا لی،آپ نے وہ پورے تین آنے پیسے اس کے حوالے کردیے۔اس کے علاوہ اور بھی اس طرح کے کئی واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلی حضرت نے توکل وقناعت پر بھرپور عمل فرمایا اور سخاوت وکرم نوازی سے خلق خدا کی خوب حاجت روائی فرمائی۔اسی طرح زہد،صبر،شکر وغیرہ جو تصوف کے اہم اجزا میں سے ہیں تمام  میں آپ یکتائے روزگار تھے۔آپ نے تصوف سے بے شمار قلوب کو معمور فرمایا اور روحانی غذا بخشی ۔
تصوف پر آپ کی تصانیف:
آپ نے جس طرح مختلف علوم وفنون پر سینکڑوں کتابیں تصنیف فرمائی اسی طرح تصوف پربھی بیش قیمت کتب و رسائل تصنیف فرمائی ہے۔جو روحانی اقدارکو فروغ بخشنے کے لیے کافی مدد گار ہیں۔عیسیٰ رضوی صاحب نے "معارف تصوف" میں تصوف وسلوک پر آپ کی بے شمارتصانیف کا ذکر کیا ہے جن میں سے چند یہ ہیں:(۱) ماقال وکفی من ادعیۃ المصطفےٰ (۴۰۳۱ھ)،صبح وشام اور اوقات خاصہ کی کار آمد دعاؤوں کا مجموعہ۔(۲) ازہار الانوار من یم صلاۃ السرار (۵۰۳۱ھ)،نماز غوثیہ کا ثبوت اور بہت سے اسرار ورموز کے بیان کا مجموعہ۔ (۳) ازہارالانوار من صبا صلاۃ الاسرار(۵۰۳۱ھ)،نماز غوثیہ کا طریقہ اور دیگر نکات ولطائف کا مجوعہ۔(۴) زھر الصلوٰۃ من شجرۃ اکارم الھداۃ (۵۰۳۱ھ)،درود میں شجرہئ طیبہ کے اورادکا مجموعہ۔(۵) الزمزمۃ القمریۃ فی الذب عن الخمریۃ (۶۰۳۱ھ)، قصیدہئ غوثیہ پر بعض معترضین کے اعتراضات کا رد۔(۶)ذیل المدعی لاحسن الوعاء (۶۰۳۱ھ)،دعا کے آداب،اوقات،مکانات اور اسباب اجابت کا بیان۔(۷) شرح الحقوق لطرح العقوق (۷۰۳۱ھ)، ابوین،زوجین اور استاذ وغیرہ کے حقوق کی مکمل تفصیل۔(۸) کشف حقائق واسرار دقائق( ۸۰۳۱ھ)،تصوف آمیز اشعار کی تشریح اور بعض سوالات تصوف کا جواب۔(۹) مشعلۃ الارشاد الیٰ حقوق الاولاد( ۹۰۳۱ھ)،اولاد کے پیدا ہونے سے لیکر بالغ ہونے تک کے حقوق۔(۰۱) اعز الاکتناہ فی رد صدقۃ مانع االزکوٰۃ(۹۰۳۱ھ)،زکوٰۃ نہ دیے کر صدقہ کرنے والے کو عالمانہ اور صوفیانہ تنبیہ۔(۱۱)الیاقوتۃ الواسطۃ فی قلب عقد الرابطۃ( ۹۰۳۱ھ)،تصور برزخ کا جواز اور شیخ سے رابطہئ قلبی کا فائدہ۔(۲۱)اعجب الامداد فی مکفرات حقوق العباد( ۰۱۳۱ھ )،کن اعمال کے سبب حقوق العباد سے نجات مل سکتی ہے۔ (۳۱)بوارق تلوح من حقیقۃ الروح( ۱۱۳۱ھ) ،روح کیا شئی ہے اس کی توضیح و تفصیل۔(۴۱) التلطف بجواب مسائل التصوف( ۲۱۳۱ھ )،مسائل تصوف کا عارفانہ جواب۔(۵۱)نقاء السلافۃ فی البیعۃ والخلافۃ( ۹۱۳۱ھ) ، بیعت وخلافت کے اھکام ومسائل کی تفصیل۔(۶۱)الفوز بالآمال فی الاوفاق والدعاء( ۶۲۳۱ھ )،اعمال ونقوش وتعویذات خاندانیء وایجادی کا مجموعہ۔(۷۱) مقال عرفاء باعزاز شرع وعلماء( ۷۲۳۱ھ) ،طریقت،شریعت سے جدا نہیں ہے اس پر احکام شرع اور عارفین کے اقوال  کا مجموعہ۔(۸۱)الوظیفۃ الکریمۃ،دعاء ماثورہ اور شب وروز کے وظائف کا مجموعہ۔(۹۱)حاشیۃ احیاء علوم الدین۔(۰۲) حاشیۃ بھجۃ الاسرار۔(۱۲) حاشیۃ حدیقۃ ندیۃ۔(۲۲)حاشیۃ مدخل۔(۳۲) حاشیۃ کتاب البریز۔(۴۲) حاشیۃ کتاب الزواجر۔اسی طرح علم جفر وتکسیر کا تعلق بھی علم تصوف سے ہے اور یہ صوفیاء کرام ومشائخین عظام کے خاص علوم میں سے ہیں،ان فنون میں بھی آپ کی کئی تصنیفات ملتی ہیں مثلا:(۵۲)اطالب الاکسیر فی علم التکسیر( ۶۹۲۱ھ)۔(۶۲) الاجوبہ الرضویۃ للمسائل الجفریۃ( ۳۱۳۱ھ)۔(۷۲) الثواقب الرضویۃ علی الکوکب الدریۃ (۱۲۳۱ھ)۔(۸۲)رسالۃ در علم تکسیر۔(۹۲) حاشیۃ الدر المکنون۔(۰۳) الوسائل الرضویۃ للمسائل الجفریۃ۔(۱۳)مجتلی العروس ومراد النفوس۔(۲۳) الجفر الجامع۔(۳۳) اسھل الکتب فی جمیع المنازل۔(۴۳) رسالۃ فی علم الجفر۔(۵۳) سفر السفر عن الجفر بالجفر۔اس کے علاوہ آپ کے دیوان میں بیشتر اشعارتصوف سے لبریز ہیں ،جو ایک سالک اور سچے عاشق رسول کے لیے نہایت مفید ہیں۔فن تصوف پر اعلی حضرت کی اتنی ڈھیر ساری کتابیں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ ایک مجدد،محقق،محدث،مفسر،فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ صوفئ کامل بھی تھے۔



محمد احسان الحق جامعیؔ کشن گنجوی            

ریسرچ سکالر: اے.بی.آئی.آر.ٹی.آئی.علی گڑھ




آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان  تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے ساتھ زیادتی آزاد ملک میں نہایت شرمناک بات ہے از قلم: محمد احسان الحق جامعی...