Saturday, August 26, 2023

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان



آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان


 تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے ساتھ زیادتی آزاد ملک میں نہایت شرمناک بات ہے



از قلم: محمد احسان الحق جامعی بی .یو.ایم.ایس. (اے.ایم.یو. علی گڑھ) و جوائنٹ سیکرٹری ایم.ایس.او. آف انڈیا


ہندوستان کی آزادی کو تقریباً ٧٦ سال کا عرصہ گزر گیا لیکن مرور ایام کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب و تمدن اور ہماری بھائی چارگی بھی دن بدن ختم ہوتے چلی جاری ہے۔ جب اس ملک پر انگریز حکومت کا قبضہ تھا تو اس حکومت کا ایک ہی فنڈا تھا؛ عوام پر ظلم و ستم کرنا اور یہاں کے لوگوں کو ذات پات و قبائل کے نام آپس میں لڑا کر اپنی حکومت کو قائم رکھنا۔ اس مقصد کے لئے اس انگریز نے ہر طرح کے حربے کو استعمال کیا اور اسی کی بدولت سالوں اس ملک پر قابض رہے۔ یہاں کے باشندوں کو آپس میں لڑایا، ذات پات اور مذہب و مسلک کی بناء پر لوگوں کو لڑایا۔ اس بیچ یہاں کے باشندوں نے بار بار کوششیں کیں اور جنگیں لڑیں، بڑی بڑی ہستیوں نے اپنی اپنی جانوں کی قربانیاں بھی پیش کیں حتی کہ ١٨٥٧ کی جنگ کا عظیم سانحہ بھی درپیش ہوا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں علماء ، رہنماء و اکابرین کی شہادت ہوئیں۔ ایسے میں حکومت نے مسلم قوم کو خوب ٹارگیٹ کیا اور ہر طرح سے ان کے پیچھے پڑ گئے۔ علماء کو پکڑ پکڑ کر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ کئیوں کو کالا پانی کی سزا دی گئی۔ پھر ہمارے دیش کے رہنماؤں کو اپنی اصلی کمزوری کا احساس ہو گیا اور سبھی مذہب کے رہنما اپنی اپنی قوم کو متحد ہو کر ملک کے لئے لڑنے پر آمادہ کیے اور یہ کوشش رنگ لائی، بالآخر ہندو مسلم سکھ عیسائی بلکہ ساری قوم کے لوگوں کی اجتماعی محنت و مشقت اور مکمل کوششوں کے نتیجے میں ١٥ اگست ١٩٤٧ کو ہمارا وطن عزیز آزاد ہوا۔ آزادی کے بعد سب مل جل کر رہنے لگے۔ چاہے شادی بیاہ ہو یا میت و ماتم ہر محفل و مجلس میں لوگ ایک دوسرے کے یہاں جایا کرتے تھے اور ایک رشتہ دار کی طرح داہنا بازو بن کر ساتھ دیتے۔ میرا خود کا مشاہدہ ہے کہ میرے گاؤں میں جب بھی شادی بیاہ ہوتی تو پورے گاؤں کے سبھی ہندو مسلم کو ایک طرف سے دعوت ہوتی تھی اور سبھی لوگ شریک ہوتے تھے ، یہاں تک کہ باہری مہمانوں کو کھانا کھلانے وغیرہ میں بھی مدد کرتے تھے، دولہے کے ساتھ بارات بھی جاتے تھے۔ اسی طرح میت وغیرہ میں بھی بھر پور شریک رہا کرتے تھے۔ ہندو و مسلم کے بیچ اگر کوئی جھگڑا یا کوئی معاملہ درپیش ہوتا تو دونوں فریق کی جانب سے  پنچ بیٹھتا اور جس کی غلطی ثابت ہوجاتی تو اسی کی قوم کے رہنما و لیڈر کی ذریعے اس کو سزا دلائی جاتی تاکہ آپس میں کوئی نا اتفاقی پیدا نہ ہو جائے۔ سب کچھ اچھے سے گزر رہا تھا، لوگ بہ حیثیت انسان ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے لیکن جب سے موجودہ حکومت ٢٠١٤ میں مرکز پر قابض ہوئی تب سے یہاں کی دونوں بڑی قوموں (ہندو مسلم) کے درمیان تناؤ اور آپسی رنجش  دن بدن بڑتی جارہی ہے۔ کچھ علاقوں میں تو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گیے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلم قوم کو ٹارگیٹ کیا جانے لگا ہے۔ مسلمانوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اب حد تو یہ ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کے بچوں کو اسکولوں میں ستایا جانے لگا ہے۔ گزشتہ سال ایک لڑکی کو محض اس کے نقاب پہننے کی وجہ سے اسکول سے نہ صرف یہ کہ باہر کر دیا گیا بلکہ اس کے پیچھے بجرنگ دل کے غنڈے نعرے بازی کرتے ہوئے دوڑتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ اس طرح کے معاملات روزآنہ ہوتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں گزشتہ کچھ دنوں قبل کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں گپتا تیاگی نامی اسکول ٹیچر  ایک مسلم طالب علم کی پٹائی اسی لڑکے کے غیر مسلم ہم سبق ساتھی سے کروا رہی ہے اور اسے زور زور سے مارنے کو کہہ رہی ہے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ ملک کا ایسا ماحول کس نے بنایا؟ اس طرح کے لوگوں پر شکنجا کسنا کس کی ذمہ داری ہے؟ حکومت تو کرے گی نہیں۔ کیوں کہ اسے اپنی حکومت بچانے کی فکر ہے۔ تو عام لوگوں کو بیدار ہونا پڑے گا۔ جو سیکولر لوگ ہیں انہیں ملک کی حفاظت کی خاطر اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ اگر ملک کی حفاظت کرنی ہے تو اس کے لئے متحد ہوکر ہمیں بھائی چارگی کو پھر سے فروغ دینا ہوگا۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ جس دیش کو ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سے سینچ کر شاد و آباد کیا ہم اسے فریب کار سیاست دانوں کے ہاتھوں برباد ہونے نہیں دیں گے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں منی پور جیسا شرم ناک واقعہ ہونا اور اس پر مرکزی حکومت کی خاموشی اور اب تک مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچانا یقینا افسوس کا مقام ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک کو اور اس کی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے میں ہر ممکن کوشش کرے۔ ہندو مسلم جیسی منفی سیاست کو چھوڑ کر مثبت سیاست پر زور دے۔ ہر ہر قوم کے اک اک فرد کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا بھر پور خیال رکھے۔ یہاں کی عوام سے بھی اپیل ہے کہ اپنا دیش بہت بڑا ہے اور اس کا چرچا ہر جگہ ہے۔ اس لئے اس کی بقا اور خوشحالی کے لئے سارے لوگ مل جل کر آگے آئیں۔ جس طرح پہلے مل جل کر رہتے تھے اسی طرح رہیں تاکہ سب ترقی کریں۔ ملک کو خوشحال بنانے میں قوت صرف کرے۔


Program on understanding the sofi orders in india

Program on

"understanding the sofi orders in india"



آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان

آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان  تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے ساتھ زیادتی آزاد ملک میں نہایت شرمناک بات ہے از قلم: محمد احسان الحق جامعی...