Monday, November 30, 2015
Saturday, November 28, 2015
names of zamzam water
آب زمزم کے مختلف نام
آب زم زم کے مختلف نام ہیں ،چنانچہ ابن منظور نے اپنی شہرہ
آفاق تصنیف "لسان العرب" اور یاقوت الحمیدی نے "معجم البلدان"میں زم زم کے مندرجہ ذیل نام گنائے ہیں:
(1)زَم زَم (2) مكْتُومَةُ (خفیہ)(3) تكتمُ (چھپانا)(4) شُباعَةُ(پیٹ بھر دینے والی) (5) سُقْيا الرَّواءُ (آب شیریں) (6) الهزمة (گڑھا) (7) هَزْمَةُ جبريل (جبرئیل کا گڑھا) (8) هزمة الملك (فرشتے کا گڑھا)(9) الركضة (ایڑ) (10) رَكْضَةُ جبريل(جبرئیل کی ایڑ) (11) زَمَمُ (12) زُمّزْمُ (13) زُمازمُ (14) شِفاء سُقْمٍ (بیماری کے لیے شفاء) (15)طَعامُ طُعْمٍ (لذیذ کھانا) (16) حَفيرة عبد المطلب (عبد المطلب کا کنواں) (17) برَة (نیکی)(18) مَضْنُونَةُ(جمع کر کے رکھا جانے والا) (19) شراب الأبرار(نیکوں کے لیے شربت) (20) طعام الأبرار(نیکوں کے لیے کھانا) (21) طيبة (پاکیزہ)۔
از :حافظ و قاری محمد حسنین رضا رضوؔی ،سالکی کشن گنج بہار
آب زمزم کی فضیلت واہمیت
آب زمزم کی فضیلت واہمیت
پانی خوہ کسی بھی نوع کا ہو وہ اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ اللہ
تعالی کی ان عظیم نعمتوں میں سے ہےجس سے تمام جاندار سیراب ہوتے ہیں اور ان کی حیات بھی اسی پر موقوف ہے لیکن آب زم
زم کی شان کچھ الگ ہی ہے کیوں کہ اس سے نہ صرف یہ کہ پیاس بجھایا جاتا ہے بلکہ اس کے
پینے والے کوثواب بھی ملتا ہےاور بے شمار بیماریوں سے شفا یابی بھی ہوتی ،اس لیے
آب زم زم تمام پانیوں کا سردار اورسب سے
زیادہ شرف و قدروالا ہے ۔
چنانچہ مسلم شریف کی روایت
ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت
ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، جب وہ کعبہ کے پردوں پیچھے چالیس دن تک
مقیم تھےاوران کا کھانا صرف زمزم تھا :کہ تم کب سے یہاں مقیم ہو ؟ توابوذر رضي
اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: میں تیس دن سے
یہیں مقیم ہوں ۔ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:تیرے کھانے کا انتظام
کون کرتا تھا؟ توانہوں نے عرض کیا: میرے پاس توصرف زمزم ہی تھا اسی کو پی کر میں
موٹا ہوگیا ، اورمیری ساری بھوک اورکمزوری ختم ہو گئی ، تو حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:" إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ
وَهِيَ طَعَامُ طٌعْمٍ"بلاشبہ زمزم بابرکت
اورکھانے والے کے لیے کھانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ (مسلم شریف :حدیث 2473 )
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"خَيْرُ
مَاءٍ عَلى وَجْهِ الأَرْضِ مَاءُ زَمْزَمَ، فِيهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ،
وَشِفَاءٌ مِنَ السُّقْمِ"(الطبرانی)
روئے زمین پر سب سے عمدہ پانی زم زم ہے ،اس میں لذیذ کھانا ہے ،اور بیماری سے شفا
ہے۔
اسی طرح حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ" (ابن ماجۃ کتاب مناسک الحج،باب الشرب
من زمزم) زمزم کا پانی جس مقصد سے بھی پیا جائے اس سے وہ مقصد پورا ہوگا۔یعنی اس
پانی میں اتنی برکت ہے کہ اس کو جس مقصد سے بھی پیا جائے اس کا وہ مقصد پورا
ہوجائے گا۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس کی
روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" فَإِنْ شَرِبْتَهُ تَسْتَشْفِي بِهِ
شَفَاكَ الله، وَإِنْ شَرِبْتَهُ مُسْتَعِيذاً بِهِ أَعَاذَكَ اللهُ، وَإِنْ شَرِبْتَهُ
لِيَقْطَعَ ظَمَأَكَ قَطَعَهُ الله" (مستدرک للحاکم)یعنی آب زمزم میں اتنی برکت ہے کہ اگر تم اسے شفا کے
لیے پیو تو اللہ تعالی تمہیں شفا دے گا،اورا گر اس کو شر سے پناہ کے لیے پیو تو
اللہ تعالی تمہیں شر سے محفوظ رکھے گا،اوراگر اسے پیاس بجھانے کے لیے پیو تو اللہ
تعالی تمہارے پیاس کو بجھا دے گا۔
اسی طرح حضرت محمد بن عبد الرحمٰن بن
ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کے
پاس بیٹھا تھا ،اسی اثناء میں ان کے پاس ایک شخص آیا ،تو انہوں نے اس شخص سے پوچھا
کہ کہاں سے آئے؟تو اس نے جواب دیا :زمزم کے پاس سے۔تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما نے فرمایا :کیاتم نے اس کو اسی طرح پیاجیسا پیناچاہیے؟تو اس نے پوچھا اس کو کس طرح پینا
چاہیے؟تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :جب اسے پیو تو قبلہ رو
ہوکر پیو،اور پینے سے پہلے بسم اللہ کہو،اور تین سانس مت لو،اور جی بھر کر پیو،اور
جب پی چکو تو الحمد للہ کہو،کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ہے:" إِنَّ
آيَةَ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُنَافِقِينَ إِنَّهُمْ لَا يَتَضَلَّعُونَ مِنْ
زَمْزَمَ"(ابن ماجہ) یعنی ہمارے اور منافقین کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ
آب زمزم جم کر نہیں پیتے ہیں۔
محمد احسان الحق جامؔعی ،کشن گنجوی
ریسرچ سکالر:البرکات اسلامک ریسرچ
اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ یوپی
Monday, November 16, 2015
Wednesday, November 11, 2015
Wednesday, November 4, 2015
Tuesday, November 3, 2015
مختصرسوانح حیات حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ
مختصرسوانح حیات حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ۔
از
محمد احسان الحق جامعؔی کشن گنجوی
ریسرچ اسکالر: اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ
:پیدائش
آپ ملک سمنان کے صوبہ خراسان کے دار السلطنت شہر سمنان میں سن۷۰۷ھ کو ایک بزرگ کامل حضرت ابراہیم علیہ الرحمہ کے گھر پیدا ہوئے ۔
:ابتدائی تعلیم
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کے پاس ہی حاصل کئے۔
:تکمیل علوم وتخت شاہی
حضرت مخدوم سمنانی نے سات برس کی عمر میں سات قرأ توں کے ساتھ پورا قرآن کریم حفظ کیا اور چودہ برس کی عمرمیں تمام علوم کی سند فراغت حاصل کی اور پندرہ سال کی عمر میں سمنان کے بادشاہ بنائے گئے۔ آپ کے دور حکومت میں سمنان عدل و انصاف اور علم و فن کا مرکز بن گیا۔
:ترک سلطنت
اللہ تعالیٰ کو حضرت مخدوم سمنانی کے ذریعہ مخلوق کے رشدوہدایت کا کام لینا تھا اسی وجہ سے آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ ہونے لگا اور راہ سلوک و معرفت کی طرف طبیعت مائل رہنے لگی۔ حضرت شیخ رکن الدین علاء الدین سمنانی متوفی ۷۳۶ ھ شیخ عبدالرزاق کاشی، امام عبداللہ یافعی، سید علی ہمدانی ، شیخ عمادالدین تبریزی اور دیگر اکابر صوفیاء و علماء سے علوم شریعت و طریقت سے بہرہ مند ہوئے۔(لطائف اشرفی ۱ص:۲۰)۔
آپ سلطنت کوٹھوکر مار کر مشاغل دنیا سے علیحدہ ہونا چاہتے تھے مگر اشارہ غیبی کے منتظر تھے۔ بالآخر رمضان المبارک کے۲۷ویں شب کو آپ کے پاس حضرت خضر علیہ السلام آئے اور فرمایا :اشرف اب وقت آگیا ہے ، سمنان چھوڑ کر ہندوستان جاؤ تمہارامرشد طریقت شیخ علاء الحق گنج نبات پنڈوی علیہ الرحمہ تمہارا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔ حضرت خضرعلیہ السلام کے کہنے پر آپ نے اپنی والدہ سے سفر کی اجازت طلب کی اور سلطنت اپنے چھوٹے بھائی سید محمد اعرف کے سپرد کرکے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔
ہندوستان کے مشہورقدیم ہندی وفارسی ادیب ملک محمد جائسی کا قول ہے :’’ امت محمدیہ کے صدقین میں دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیاء پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ایک سلطان التارکین خواجہ ابراہیم بن ادہم،دوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ سمنانی رحمۃ اللہ علیہما ۔(صحائف اشرفی ۱۳) ۔
حضرت مخدوم پاک،شہر سمنان سے نکل کر سمرقند کے راستے ملتان میں اوچھ شریف پہنچے۔ یہ مقام اس وقت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۷۸۰ ھ کے روحانی تصرفات و رشد و ہدایت کا مرکز بنا ہوا تھا حضرت مخدوم سمنانی حضرت مخدوم جہاں کی خانقاہ میں تین روز تک مہمان رہے۔ خود حضرت مخدوم سمنانی کا بیان ہے کہ حضرت مخدوم جہاں نے آپ کو اکابر مشائخ سے حاصل ہونے والے تمام روحانی فیوض وبرکات اور سلسلہ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازا۔(لطائف اشرفی ج۲ص۹۴ ،خزینۃ الاصفیان ج۲ص۵۷تا:۶۳)۔
وقت رخصت حضرت مخدوم جہاں نے فرمایا : فرزند اشرف جلدی کرو اور دربار شیخ علاء الحق میں حاضر ہوجاؤ وہ شدت سے تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ (لطائف اشرفی ج۲ص۹۴ ،خزینۃ الاصفیان ج۲ص۵۷تا۶۳)۔
مخدوم سمنانی دہلی ہوتے ہوئے بہار شریف پہنچےوہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحیٰ مَنِیرِی علیہ الرحمۃ(661ھ-783ھ)کی نماز جنازہ تیار تھا آپ نے نماز جنازہ پڑھائی، پھر وہاں سے بنگال پہنچے۔ صوبہ بنگال میں ضلع مالدہ میں مقام پنڈوہ شریف کا مرکز حضرت شیخ علاء الحق والدین لاہور رشد و ہدایت بنا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم سمنانی کی آمد کی خبر پہلے ہی متعدد بار حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت شیخ علاء الحق کو دے دی تھی۔ حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی نے شاہانہ انداز میں حضرت مخدوم سمنانی کا استقبال کیا اور بکمالِ اعزاز،انہیں اپنی خانقاہ میں لائے۔ حضرت شیخ نے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں مرید فرمایا اور دیگر سلاسل کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ مخدوم سمنانی حضرت شیخ کی خدمت میں رہ کر کثیر مجاہدات و ریاضیات کے ذریعہ منازل سلوک و معرفت کی تکمیل فرمائی۔ ایک روز شیخ کی خانقاہ میں مجاہدہ میں مشغول تھے۔ اسی وقت درودیوار سے یہ غیبی آواز آنے لگی ’’اشرف جہانگیر ، اشرف جہانگیر‘‘ حضرت شیخ نے مسرت کا اظہار فرمایا اور اشارہ غیبی سے یہ معزز خطاب حضرت مخدوم سمنانی کو عطا فرمایا۔ (لطائف اشرفی ، صحائف اشرفی، مرأۃ الاسرار ،ص۱۰۴۶)۔
مولف لطائف اشرفی،خلیفہ حضرت مخدوم سمنانی ،حضرت نظام الدین یمنی نے لکھا ہے کہ حضرت مخدوم سمنانی نے راہ سلوک میں ۳۰؍ سال سیر و سیاحت کی اور ۵۰۰؍ سو اولیاء ومشائخ وقت سے علوم معرفت و فیوض و برکات حاصل کئے۔ آپ نے گلبرگہ شریف میں حضرت گیسو دراز بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے پر بھی حاضر دی اور وہاں چلہ کشی فرمائی ہے ۔ (لطائف اشرفی و صحائف اشرفی ج۱ ص ۸۵)۔
تکمیل سلوک کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے مخدوم سمنانی رشد وہدایت کے لئے بنگال سے اور، شیراز ہند ،جونپوراور بنارس کے راستے سے مقام کچھوچھہ (جواس وقت یوپی کے ضلع جونپور میں تھا اور اب ضلع امبیڈکرنگر میں ہے ) پہنچے۔ جونپور میں ان دنوں سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی اور سلطان کی علماء نوازی و مشائخ دوستی کی بنیاد پر جونپورعلماء و مشائخ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم جونپور پہنچے تو وہاں پر سلطان ابراہیم شرقی اور علامہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی اور دیگر علماء و مشائخ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا اور کثیر تعداد میں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خود سلطان آپ کا معتقد ہوا اور اپنے اہل خانہ کو آپ سے مرید کروادیا۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی مخدوم سمنانی کے علم و معرفت سے حد درجہ متاثر ہوئے اور آپ کے معتقد ہوگئے قاضی صاحب کا بعض مسائل میں حضرت مخدوم سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔( صحائف اشرفی ج۱،ص۶۰تا۷۵) ۔
کثیر تعداد میں غیر مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور گمراہوں و فاسقوں نے اپنی گمراہی و فسق و فجور سے توبہ کی۔ ایک مرتبہ بنارس میں ہندوپنڈتوں سے آپ کا مباحثہ ہوا انہوں نے آپ سے دین اسلام کی حقانیت پر دلیل طلب کی، سامنے بت خانہ تھا اور لوگ پوجا میں مصروف تھے۔ آپ نے فرمایا : جس دین کا کلمہ میں پڑھتا ہوں اس کی حقانیت کی گواہی اگر تمہارے بت خود دے دیں تو؟ انہوں نے کہا:اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟ حضرت مخدوم سمنانی نے ایک بت کو مخاطب کرکے کلمہ اسلام پڑھنے کو کہا تو وہ بت زندہ ہوگیا اور آپ کے ساتھ کلمہ پڑھنے لگا۔ آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر اور اس کی شہرت سن کر اسی دن ایک لاکھ ہندو مسلمان ہوئے ۔ مقام کچھوچھہ جہاں پر آپ کا مزار پر انور ہے۔پہلے وہاں ایک بہت بڑا جوگی(جادوگر) اپنے پانچ سو تربیت یافتہ چیلوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ آپ کی بزرگی و کرامات سے متاثر ہو کر ان تمام کے تمام جوگی جادوگرآپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کئے۔ اس جیسے بے شمار کرامتوں کے ذریعہ آپ نے لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل فرمایا اور لاکھوں مسلمانوں کو داخل سلسلہ کر کے ان کی اصلاح و تزکیہ نفس کا سامان مہیا فرمایا۔
۔ بالآخر آپ کے وصال کا وقت قریب آیااور آپ کا۲۸محرم الحرام ۸۰۸ھ کوکچھوچھہ مقدسہ میں وصال ہوا ۔آپ نے تقریباًایک سو سال کی طویل عمر پایا۔
آپ کا مزار پاک وہیں ہےجو آج مرجع خلائق ہےجس سے آج بھی خلق خدا مستفیض و مستنیر ہورہی ہے۔ اور ہرسال ماہ محرم کے آخری عشرہ میں یعنی ستائیس اٹھائیس محرم الحرام کو ) آپ کا عرس نہایت ہی احترام و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں لاکھوں عقیدت مند شرکت فرماتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو مخدومی فیضان سے مالا مال فرمائے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان
آزاد ہندوستان کے مظلوم مسلمان تعلیمی اداروں میں بھی مسلم طلبہ کے ساتھ زیادتی آزاد ملک میں نہایت شرمناک بات ہے از قلم: محمد احسان الحق جامعی...

-
غیبت کی تعریف بہارِ شریعت میں صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے غیبت کی ...
-
بسم الرحمن الرحیم الحمد للہ الذی خص عبادہ ا لأ خیار، فمحا من قلوبھم ظلم۔۔۔ وحب الأغیار و حیاھم بالحلم والصفا من سائر الأکدار۔ وال...
-
آپ کریم ابن کریم یا رسول اللہ!!! جس طرح اللہ تعالی نے حضور پرنور سرکار دوعالم نور مجسم صلی اللہ علیہ کو سارے عالم میں ممتاز بنایا ہے...